ویت نام: فیس بک کی وجہ سے حکومت بے چین
13 جنوری 2011جنوب مشرقی ایشیا کے اس ملک میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک کی سروس کو محدود کرنے کی کوشش ظاہر کرتی ہے کہ ویت نام میں حکمران کمیونسٹ پارٹی فیس بک اور ایسی دیگر ویب سائٹس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے کتنی بے چین ہے۔
کمیونسٹ پارٹی یہ اعتراف تو کرتی ہے کہ اس کے سماجی، اقتصادی منصوبے کے تحت ویت نام کو ایک جدید ریاست میں تبدیل کیا جائے گا اور اس کے لیے انٹرنیٹ کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اسی ملک میں کمیونسٹ پارٹی کی گیارہویں قومی کانگریس سے پہلے کے کئی مہینوں میں حکومت نے ایسے متعدد اقدامات بھی کیے، جن کو انٹرنیٹ پر اظہار رائے کی آزادی کے خلاف سنسرشپ کا نام دیا جا رہا ہے۔
ویت نام کمیٹی برائے انسانی حقوق (VCHR) کے صدر وو وان آئی کا کہنا ہے کہ پارٹی کانگریس سے پہلے حکومت نے نہ صرف کئی ویب سائٹس اور بلاگز بند کر دیے اور فیس بک کو بھی بلاک کر دیا گیا بلکہ ساتھ ہی ایک نیا متنازعہ قانون بھی متعارف کر دیا گیا۔ اس نئے قانون کے تحت انٹرنیٹ کیفے چلانے والے افراد اور اداروں کو پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ ایسے سافٹ ویئر استعمال کریں، جن کی مدد سے ان کے گاہکوں کی آن لائن سرگرمیوں پر پوری نگاہ رکھی جا سکے۔
ویت نام کمیٹی برائے انسانی حقوق ایک ایسی تنظیم ہے، جس کا صدر دفتر فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم ہے۔ اس کمیٹی کے صدر وو وان آئی نے خبر ایجنسی IPS کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ ویت نام میں آج بہت سے شہریوں کا معیار زندگی پہلے کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے تاہم اس ملک میں سرمائے کی غیر مساوی تقسیم اور سماجی عدم مساوات کے باعث پائی جانے والی تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
ویت نام میں حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کی قومی کانگریس بدھ بارہ جنوری کو شروع ہوئی، جو انیس جنوری تک جاری رہے گی۔ ان دنوں ہنوئے میں جاری یہ آٹھ روزہ پارٹی کانگریس گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہونے والا اپنی نوعیت کا پہلا پارٹی اجتماع ہے۔
اس کانگریس میں پورے ملک سے 1400 مندوبین حصہ لے رہے ہیں، جو کمیونسٹ پارٹی کے 3.6 ملین ارکان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ پارٹی اجتماع ویت نام میں ایسا سیاسی پلیٹ فارم ہے، جہاں سیاست اور معیشت سمیت ہر موضوع پر کھل کر بات کی جاتی ہے۔ تاہم اس مرتبہ کئی سیاسی ماہرین کا خیال یہ بھی ہے کہ اس کانگریس سے بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔
ہو چی منہ سٹی کے ایک ایشیائی ماہر تعلیم نے IPS کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس گیارہویں قومی پارٹی کانگریس سے اس امر کی وضاحت بھی ہو جائے گی کہ ویت نام میں آئندہ حکمران جماعت کے دو اندرونی دھڑوں میں سے کون سا گروپ زیادہ طاقتور بن کر سامنے آ ئے گا، چین نواز گروپ یا پھر پارٹی کا قوم پسند ونگ۔
ویت نام کی مجموعی آبادی 86 ملین بنتی ہے اور وہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ایسے شہریوں کی تعداد بھی 25 ملین کے قریب ہے، جو اہم اطلاعات تک رسائی اور اظہار رائے کے لئے انٹرنیٹ کو سب سے اہم سمجھتے ہیں۔
ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت، جو گزشتہ ایک عشرے کے دوران سالانہ بنیادوں پر متاثر کن اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے میں کامیاب رہی، عام شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی کی صورت میں ان کا یہ بنیادی حق بھی دیتی۔ لیکن ہوا یہ کہ 2009 میں پہلی مرتبہ فیس بک تک عوامی رسائی معطل کیے جانے کے بعد سے اب تک ویت نام میں حکمرانوں نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے بارے میں ایسا رویہ اپنا رکھا ہے، جو تھوڑے تھوڑے عرصے بعد مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت. ندیم گِل