ویسٹر ویلے بطور وزیر خارجہ، ایک میزانیہ
10 ستمبر 2013فری ڈیموکریٹک پارٹی (FDP) کے چیئرمین کے طور پر گیڈو ویسٹر ویلے مذاق کا بھی نشانہ بنے اور طعن و تشنیع کا بھی تاہم 2009ء کے انتخابات میں تقریباً 15 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے انہوں نے زبردست انتخابی کامیابی حاصل کی اور وزیر خارجہ اور نائب چانسلر بنے، جو اُن کے سیاسی کیریئر کا نقطہ عروج تھا۔ اس عہدے پر اُن کا آغاز زیادہ اچھا نہیں رہا کیونکہ وہ خارجہ معاملات پر توجہ دینے کی بجائے داخلی سیاست میں زیادہ بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔
ویسٹر ویلے نے خود پر پڑنے والے دباؤ کے نتیجے میں اپریل 2011ء کے اوائل میں نہ صرف پارٹی قیادت چھوڑ دی بلکہ وہ نائب چانسلر کے عہدے سے بھی دستبردار ہو گئے۔ اس طرح اُنہوں نے تمام تر توجہ وزارتِ خارجہ پر دینا شروع کر دی۔ تب اُن کی کامیابی کا اعتراف پارلیمان کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین رُپریشت پولینس نے بھی کیا، جن کا تعلق کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU) سے تھا۔ اُنہوں نے کہا:’’اب ہر شخص کو اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ تن من سے وزیر خارجہ کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔‘‘ درحقیقت ویسٹر ویلے یورپ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جرمن مفادات کی بھرپور ترجمانی کر رہے تھے۔
مشکل فیصلوں کے لیے وزیر
فرینکفرٹ یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات گنتھر ہیلمان کے خیال میں چانسلر انگیلا میرکل کے ہوتے ہوئے گیڈو ویسٹر ویلے کے لیے اپنی الگ پہچان بنانا کافی مشکل تھا:’’ایک وزیر خارجہ کے لیے ایک ایسی چانسلر کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنے آپ کو منوانا ایک مشکل کام ہے، جس کے لیے اپنی روزمرہ سیاسی ذمے داریوں کی ادائیگی ایک معمول بن چکا ہو۔‘‘
چانسلر میرکل نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ کم خوشگوار خارجہ سیاسی فیصلے کرنے کی ذمے داری اپنے وزیر خارجہ کی جانب دھکیل دی۔ مثلاً مارچ 2011ء میں جب عالمی سلامتی کونسل میں شمالی افریقی ملک لیبیا میں نو فلائی زون کے قیام کا معاملہ درپیش ہوا تو ویسٹر ویلے نے ویٹو طاقتوں روس اور چین کے ساتھ مل کر اپنا حق رائے دہی محفوظ رکھا۔ اگرچہ گنتھر ہیلمان کے بقول درحقیقت میرکل اور وزیر دفاع تھوماس ڈے میزیئر بھی بڑی حد تک اس فیصلے میں شریک تھے تاہم سیاسی مخالفین اور میڈیا نے اس فیصلے کے لیے تمام تر تنقید کا نشانہ ویسٹر ویلے کو بنایا۔ چھ ماہ بعد ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حالت یہ تھی کہ ویسٹرویلے کی تقریر کا نمبر کہیں بالکل آخر میں سوڈان، ڈنمارک اور لیشٹن شٹائن سے پہلے آیا۔
ویسٹر ویلے تنقید کی زَد میں
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) کے خارجہ امور کے ماہر سیاستدان رولف میوٹسنش اتنا تو اعتراف کرتے ہیں کہ ان گزرے چار برسوں میں ویسٹر ویلے کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا ہے تاہم اُنہیں اُن کے عہدِ وزارت میں کوئی نمایاں کام نظر نہیں آتے۔ مثلاً اُن کا کہنا یہ ہے کہ فروری 2012ء میں جرمن حکومت کا جو خارجہ سیاسی خاکہ پیش کیا گیا تھا، وزیر خارجہ اُسے عملی شکل نہیں دے پائے۔
میوٹسنش نے اس امر کو ہدفِ تنقید بنایا کہ ویسٹر ویلے نے انسانی حقوق یا جمہوری قدروں کی پروا کیے بغیر چین، قازقستان اور ملائیشیا کو اُن ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا، جو آگے چل کر عالمی منظر نامے پر زیادہ اہم کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ایٹمی اسلحے میں تخفیف کا عزم لے کر آنے والے ویسٹر ویلے کے دور میں عرب جزیرہ نما میں کشیدگی کی لپیٹ میں آئے ہوئے خطّوں کو ہتھیار فراہم کیے گئے تاہم اس معاملے میں بھی زمام کار میرکل کے ہاتھوں میں تھی۔
میرکل نظریہ
جولائی 2011ء میں جرمنی کی وفاقی سلامتی کونسل کا سعودی عرب کو لیپرڈ طرز کے 200 جنگی ٹینک برآمد کرنے کا فیصلہ سخت تنقید کا نشانہ بنا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اُس سے کچھ ہی عرصہ پہلے مارچ 2011ء میں سعودی دستے اپنے چھوٹے سے ہمسایہ ملک بحرین میں داخل ہو گئے تھے تاکہ وہاں حکمران خاندان کے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلنے میں مدد دے سکیں۔
اس فیصلے کے پیچھے ’میرکل نظریہ‘ کارفرما تھا۔ نظریہ یہ تھا کہ بحران زدہ علاقوں میں تنازعات کے خاتمے کے لیے فوجی بھیجنے کی بجائے علاقائی طاقتوں کو اسلحے سے لیس کیا جائے اور اس طرح کی ذمے داریاں اُنہیں سونپی جائیں۔ اگرچہ جرمنی نے اپنے چھ ہزار سے زیادہ فوجی بیرون ملک مشنوں پر تعینات کر ر کھے ہیں تاہم وزیر خارجہ ویسٹر ویلے بھی ’میرکل نظریے‘ کی حمایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں:’’فوجی کارروائیاں سیاست کا معمول کا حربہ نہیں بلکہ ہمیشہ ایک بڑا استثنیٰ ہونی چاہییں۔‘‘