يونان سے نکالے گئے مہاجرين کی ترکی آمد
4 اپریل 2016يونانی جزيرے ليسبوس سے ترک بحری جہاز ليسووس اور نيزلی جيل 131 تارکين وطن کو لے کر ترکی روانہ ہو چکی ہيں اور تازہ ترين اطلاعات کے مطابق يہ جہاز ترک ساحلی شہر ديکيلی پہنچ چکی ہيں۔ ترکی پہنچنے والے مہاجرين ميں اکثريت پاکستانی اور بنگلہ ديشی شہريوں کی ہے۔ ترک حکام کے بقول ان پناہ گزينوں کو ديکيلی ميں عارضی قيام کے بعد چشمے نامی ايک اور ساحلی شہر منتقل کر ديا جائے گا اور وہاں سے انہيں مزيد آگے روانہ کيا جائے گا۔
يونان ميں يورپی سرحدوں کی محافظ ايجنسی فرنٹيکس ملک بدريوں کے عمل کی نگرانی کر رہی ہے۔ ليسبوس ميں موجود ايجنسی کی ترجمان ايوا مونکيور نے رپورٹرز کو بتايا کہ مہاجرين کے پہلے گروپ کی ترکی واپسی کا عمل کافی منظم تھا اور اس دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پيش نہيں آيا۔ ان کے بقول ترک اہلکار بھی اس عمل کی نگرانی ميں مصروف ہيں۔
خيوس نامی ايک يونانی جزيرے سے بھی ايک کشتی تارکين وطن کو ترکی پہنچانے کا کام کر رہی ہے البتہ تاحال يہ واضح نہيں کہ اس مقام سے کتنے مہاجرين کی ملک بدری عمل ميں آ رہی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کے ايک فوٹو گرافر نے بتايا ہے کہ خيوس ميں چند درجن رضاکاروں نے ملک بدريوں کے خلاف احتجاج کيا اور ’آزادی‘ کے نعرے لگائے۔
ترک وزير داخلہ ايفکان آلا يہ کہہ چکے ہيں کہ انتظامی طور پر ان کا ملک پير کے دن پانچ سو مہاجرين کو لينے کے ليے تيار ہے۔ يونانی حکام آج ملک بدر کيے جانے والے تقريباً چار سو مہاجرين کے نام مہيا کر چکے ہيں تاہم اس تعداد ميں کمی بيشی ممکن ہے۔
يونانی اہلکار نے ابھی تک اس بارے ميں زيادہ اطلاعات فراہم نہيں کی ہيں کہ کتنے مہاجرين کو بحيرہ ايجيئن کے راستے واپس ترکی بھيجا جائے گا۔ تاہم سرکاری نيوز ايجنسی اے اين اے کے مطابق پير سے لے کر بدھ تک روزانہ تقريباً ڈھائی سو پاکستانی، سری لنکن، افريقی اور بنگلہ ديشی تارکين وطن کو ترکی بھيجا جا سکتا ہے۔ مہاجرين کے بحران سے نمٹنے والی يونانی ايجنسی کے ترجمان نے واضح طور پر آج اعلان کيا ہے کہ يہ پہلے دن صرف ان تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا ہے، جنہوں نے سياسی پناہ کی درخواستيں جمع ہی نہيں کرائيں۔
دريں اثناء معاہدے کے تحت ترکی ميں موجود شامی پناہ گزينوں کی يورپ منتقلی کا عمل بھی پير ہی سے شروع ہو رہا ہے۔ اطلاعات ہيں کہ آج پينتيس شامی تارکين وطن ترکی سے جرمنی پہنچ رہے ہيں جبکہ ديگر کچھ فرانس، فن لينڈ اور پرتگال پہنچ رہے ہيں۔