ٹریزا مے بدھ کو برطانیہ کی وزیر اعظم بن جائیں گی، کیمرون
11 جولائی 2016یہ بات تو طے تھی کہ اگلا برطانوی وزیر اعظم کوئی مرد نہیں بلکہ ایک خاتون ہوں گی۔ اس سلسلے میں برطانیہ کی حکم ران قدامت پسند پارٹی کی قیادت کے لیے انتخاب نو ستمبر کو ہونا تھا تاہم اس سلسلے میں حیران کن موڑ آج اس وقت آیا جب 59 سالہ ٹریزا مے کی حریف امیدوار اینڈریا لَیڈسم نے وزارت عظمیٰ کے پارٹی انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ دریں اثناء برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ بطور وزیراعظم مے کی تقرری بدھ کو ہو جائے گی۔
اینڈریا لَیڈسم پر اس وقت شدید تنقید کا آغاز ہو گیا تھا جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ ان کی تعلیم مے سے زیادہ ہے اور یہ کہ مے کے بچے بھی ہیں۔
آج انتخاب کی دوڑ سے دست بردار ہوتے ہوئے اینڈریا لَیڈسم کا کہنا تھا، ’’برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے سلسلے میں مے برطانوی عوام کے لیے مثالی طور پر شرائط طے کر سکتی ہیں۔‘‘
دوسری جانب اینڈریا لَیڈسم کے حمایتوں نے بھی اپنی امیدوار کے اس فیصلے کو انتہائی خوش دلی سے قبول کیا ہے۔ ان کے حمایتی اور لندن کے سابق میئر بورس جانسن نے کہا ہے کہ اب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو جلد از جلد اقتدار ٹریزا مے کے حوالے کر دینا چاہیے۔
مے کی مخالفت میں مہم چلانے والے مائیکل گووو نے کہا ہے کہ اب ان کی سیاسی جماعت کو ’’جتنی جلد ممکن ہو آگے کی طرف چلنا چاہیے‘‘ اور اب ان کی مکمل حمایت نئی وزیراعظم کے لیے ہو گی۔
دوسری جانب بریگزٹ کے بعد برطانوی کرنسی پاؤنڈ کی قدر میں کمی ہو گئی تھی لیکن اینڈریا لَیڈسم کے اعلان کے بعد اس میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
مے سن دو ہزار دس سے برطانیہ کی وزیر داخلہ ہیں اور وہ ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ابھری ہیں۔ مے کا خیال ہے کہ بریگزٹ سے بریگزٹ ہی مراد لی جائے گی لیکن یونین کو خیرباد کہنے کے لیے آرٹیکل پچاس سے قبل برطانوی مذاکراتی عمل واضح اور شفاف ہونا ضروری ہے، اور مذاکراتی عمل کی تکمیل کے بعد ہی اس آرٹیکل کو استعمال میں لایا جائے گا۔
ٹریزا مے برطانیہ کی ’آئرن لیڈی‘ کے نام سے مشہور سابق وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے ساتھ بھی کام کر چکی ہیں اور بعض قدامت پسند سیاسی حلقوں کے نزدیک وہ ایک ’مشکل‘ خاتون سیاست دان تصور کی جاتی ہیں۔
حکمران قدامت پسند پارٹی نے آج شام کو ایک اجلاس طلب کر لیا ہے تاکہ مے کی بہ طور پارٹی لیڈر اور بہ طور وزیراعظم باقاعدہ منظوری سے متعلق فیصلہ کیا جا سکے۔