پانی کی قلت بھارت کے ليے بھی گھمبير مسئلہ، رپورٹ
16 جون 2018
بھارت ميں سن 2030 تک پانی کی مانگ اس کی ترسيل سے دو گنا سے زائد ہو جائے گی۔ يہ انکشاف ايک تھنک ٹينک نے گزشتہ روز کيا ہے جس کی سربراہی وزير اعظم نريندر مودی کر رہے ہيں۔ تھنک ٹينک کی رپورٹ کے مطابق اس ممکنہ صورتحال ميں لاکھوں لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا تو ہو گا ہی اور ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی قومی پيداوار ميں بھی چھ فيصد تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق يہ پانی کے حوالے سے بھارت کو درپيش تاريخ کا بدترين طويل المدتی بحران ہے۔
جنوبی ايشيائی رياست بھارت ميں سالانہ بنيادوں پر دو لاکھ افراد کی اموات پينے کے صاف پانی کی عدم دستيابی کی وجہ سے ہوتی ہيں۔ ’نيشنل انسٹيٹيوٹ فار ٹرانفارمنگ انڈيا‘ (NITI) نے مختلف ايجنسيوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے بتايا ہے کہ ملک بھر ميں قريب چھ سو ملين افراد کو اس وقت بھی پانی کی شديد يا انتہائی شديد قلت کا سامنا ہے۔
رپورٹ ميں بتايا گيا ہے کہ بھارت ميں زمين سے نکلنے والا پانی چاليس فيصد ملکی ضروريات پوری کرتا ہے۔ اس ذريعے سے حاصل ہونے والا پانی انتہائی تيز رفتاری کے ساتھ ختم ہو رہا ہے اور اس تناظر ميں پانی کے قابل بھروسہ اور ديرپا ذرائع تلاش کرنے پر زور ديا گيا ہے۔ ’’بھارت کو پانی کی قلت کے اپنے تاريخ کے بدترين بحران کا سامنا ہے، جس سے لاکھوں افراد کی زندگيوں اور ذريعہ معاش کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘
خشک سالی عام ہوتی جا رہی ہے، جس سے کسانوں کی مشکلات میں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ اسی دوران بھارت کی مختلف رياستوں کے مابين تنازعات بھی پھوٹ رہے ہيں۔ اس وقت بھارت ميں داخلی سطح پر سات ايسے تنازعات جاری ہيں، جو پانی کی تقسیم سے جڑے ہیں اور کسی جامع فريم ورک کی عدم دستيابی کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔
بھارت کی مجموعی آبادی 1.3 بلين افراد پر مشتمل ہے۔ ان ميں سے تقريباً 163 ملين افراد اپنے گھروں کے پاس پينے کے صاف پانی کے بندوبست سے محروم ہيں۔
ع س / ع ح، نيوز ايجنسياں