پاک افغان روس تاجکستان سربراہی کانفرنس
18 اگست 2010روس کے بحيرہء اسود کے شہر سوچی ميں آج روسی صدر دیمتری ميدويديف کی دعوت پر پاکستان، افغانستان، تاجکستان کے صدور کے درميان افغانستان کے مسئلے پر ايک مختصر سربراہ کانفرنس ہوئی۔ تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان ميں ايک عشرے طويل جنگ ميں تقريباً 15000فوجيوں کی ہلاکت اور افغانستان سے فوج واپس بلا لينے کے دو عشروں بعد روس افغانستان اور اردگرد کے علاقے ميں اپنے اثرورسوخ ميں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔
دیمتری میدویدیف نے پاکستانی صدر آصف زرداری، افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ تاجکستان کے صدر امومالی رخمون سے عليحدہ عليحدہ ملاقاتيں کيں۔ اس کے بعد چاروں رہنماؤں نے سربراہی کانفرنس ميں بھی تبادلہء خيالات کيا۔
مشکلات سے پر ماضی کے حامل ممالک پاکستان اور روس نے طالبان کے خلاف افغان حکومت کی جنگ کی حمايت کی۔ پاکستان کے صدر زرداری نے کہا کہ دنيا کو متحد رہنا چاہئےاور ہميں افغان عوام کی مدد کرنا چاہئے۔ روسی صدر نے يہ بھی کہا کہ روس افغانستان کے ساتھ اقتصادی روابط بڑھانے کے لئے تيار ہے۔ روسی صدر نے کہا کہ ہم ايک ہی علاقے ميں رہتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے مسائل اور امکانات بھی مشترک ہيں۔
افغان صدر کرزئی نے صدر ميدویديف سے دو طرفہ ملاقات ميں افغانستان پر اُن کی توجہ کا شکريہ ادا کيا اور کہا کہ افغانستان کو دوستوں اور روس جيسے عظيم ممالک کی مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے روس ميں جنگلاتی آگ کی وجہ سے ہونے والی حاليہ تباہی پر افسوس کا اظہار کيا۔
اس کانفرنس کا اہم ترين پہلو پاکستان کے صدر زرداری اور افغان صدر کرزئی کی ملاقات تھا کيونکہ کرزئی مسلسل يہ الزام لگارہے ہيں کہ پاکستان کی خفيہ سروس آئ ايس آئی طالبان کی مدد کررہی ہے۔ وہ يہ بھی کہہ چکے ہيں کہ دہشت گردوں کی صرف مالی مدد ہی نہیں بلکہ ان کے تربيتی مراکز بھی افغانستان کے باہر ہيں اور اُن کے خلاف جنگ ہونا چاہئے۔ اس سے اُن کی مراد واضح طور پر پاکستان ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے ترديد کی ہے۔
افغان صدر کے ترجمان صدقی نے صدر کرزئی اور آصف علی زرداری کے درميان آج صبح ہونے والی ملاقات کی تصدیق تو کی لیکن مزيد تفصيلات نہیں بتائیں۔
ماسکو يہ واضح کرچکا ہے کہ وہ افغانستان میں فوج نہيں بھیجنا چاہتا ليکن اس نےکسی دوسری سابق سوويت جمہورياؤں کی طرح سے نيٹو کو افغانستان سامان منتقل کرنے کے لئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
روسی صدر نے کہا کہ افغانستان ميں منشيات کی پيداوار روس کے لئے ايک بڑا مسئلہ ہے۔ روس اس سلسلے ميں امريکہ اور نیٹو پرسخت نکتہ چينی کرچکا ہے۔ نيٹو اس سال کے شروع ميں افغانستان ميں افيون کی کاشت کے خاتمے کے روسی مطالبے کو رد کرتے ہوئے يہ کہہ چکا ہے کہ منشيات پر قابو پانے کے لئے روس کی بہترين مدد طالبان بغاوت کے خلاف ماسکو کی حمايت ميں اضافہ ہوگا۔