پاک بھارت مذاکرات، امیدیں وخدشات
13 فروری 2010وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے دفتر کی طرف سے 25 فروری کو نئی دہلی میں پاکستان اور انڈیا کے خارجہ سیکریٹریز کی سطح پر ملاقات کی تصدیق کردی گئی ہے۔
جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں قائم ’Peace Research Institute ‘ سے منسلک کارسٹن راؤخ نے پاک بھارت امن مذاکرات اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گویا یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے تاہم اس سے بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنا غلط ہوگا۔
راؤخ نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش تین ماہ قبل نئی دہلی حکومت کی طرف سے کی گئی تھی تاہم پاکستان کی طرف سے واضح جواب سامنے نہیں آیا۔ ان کے بقول ایک سال تک معطل ان مذاکرات کی بحالی کے پیچھے امریکہ کا کردار اہم ہے۔ ان کے بقول: ''میرے خیال میں امریکہ نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے کافی زیادہ زیر دباؤ لایا ہے''۔
جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد نومبر سن دوہزار نو میں ’کومپوزٹ ڈایئلاگ‘ کا سلسلہ ختم کر دیا تھا جس کا مقصد ایک طرح سے پاکستان کو سزا دینا تھا کیوں کہ بھارت یہ کہتا رہا ہے کہ کا پاکستان دھشت گردی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔ کارسٹن کے مطابق ممبئی حملوں کے بعد بھارت میں عوامی، سیاسی اور میڈیا کی سطح پر پاکستان مخالف جذبات بہت زیادہ بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ نئی دہلی حکومت سے رد عمل کے طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قائم دھشت گردی کے مبینہ کیمپس پر ملٹری ایکشن کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا، ایسی صورتحال میں من موہن سنگھ حکومت کو کوئی نا کوئی قدم اٹھانا تھا۔
جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ 25 فروری کے مجوزہ دو طرفہ مذاکرات کوئی نئی پیش قدمی نہیں ہے ، دراصل امن کی بحالی کے لئے کی جانے والی متعدد کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ خاص طور سے سن 2009 ء میں شرم الشیخ میں ایک سمٹ کے موقع پر من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کے مابین ہونے والی ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ کومپوزٹ ڈائیلاگ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کارسٹن راؤخ نے کہا: '' کومپوزٹ ڈائیلاگ کا مطلب ہے تمام متنازعہ مسائل پر بات چیت کرنا اور پاکستان اور بھارت کے مابین متعدد مسئلے اب بھی حل طلب ہیں۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ کشمیر ہے جبکہ بھارت کے لئے سب سے اہم موضوع دہشت گردی ہے''۔
راؤخ کا کہنا ہے کہ 25 فروری کو دونوں ممالک کے مابین سیکریٹریز کی سطح کی ملاقات پر اتفاق کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ عشروں سے جو تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں وہ اب اچانک دوستانہ ہو گئے ہیں تاہم 25 فروری کے مذاکرات تعلقات میں بحالی کی طرف ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔
جرمن ماہر نے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہےکہ بھارت پاکستان کی جانب سے دھشت گردی کے خاتمے کے لئے ممکنہ اقدامات کی یقین دہانی پر بھروسہ کرتا ہے۔ کارسٹن راؤخ کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے مفادات میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے دھشت گردی کے خلاف جنگ، کیونکہ پاکستان خود اس کا سب سے بڑا شکار بنا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین انیس سو ننانوے، دوہزار ایک اور دو ہزار چار میں بھی کومپوزٹ ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کے حل کی کوششیں کی گئی تھیں۔
رپورٹ : کشور مصطفیٰ
ادارت : شادی خان سیف