پاکستان امریکی سرگرمیوں سے متعلق تحریری معاہدے کا خواہش مند
1 ستمبر 2011تاہم امریکہ کی جانب سے ایسے کسی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدگی کے شکار تعلقات میں مزید دراڑیں ڈال سکتا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستانی فوج چاہتی ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کرے جس میں پاکستان میں سرگرم سی آئی اے کے ایجنٹوں کی تعداد، امریکی ڈرون حملوں کی پیشگی اطلاع اور جمع کی جانے والی انٹیلیجنس سمیت بہت سی دیگر تفصیلات شامل ہوں۔ اس کے علاوہ فوج چاہتی ہے کہ امریکہ پاکستان کو تحریری ضمانت دے کہ اگر القاعدہ کے موجودہ رہنما ایمن الظواہری کی پاکستان میں موجودگی کا کوئی سراغ ملے تو اس کے خلاف کارروائی بھی پاکستانی فوج خود کرے گی۔
پاکستان کے ایک اعلٰی فوجی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اب مزید ابہام کی گنجائش نہیں رہی۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کھچاؤ کا آغاز رواں برس فروری میں سی آئی اے کے ایک کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کی ہلاکت سے ہوا تھا۔ ڈیوس نے کہا تھا کہ اس نے یہ قدم ذاتی دفاع میں اٹھایا تھا مگر اس کی رہائی اعلٰی سیاسی سطح پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان کھینچا تانی اور ہلاک ہونے والے افراد کے ورثاء کو خون بہا ادا کرنے کے بعد ہی عمل میں آ سکی تھی۔
مئی میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کمانڈوز کے آپریشن نے اس صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا کیا۔ پاکستانی فوج کا خیال ہے کہ اس آپریشن سے اس کی علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اگر کوئی باضابطہ معاہدہ ہوتا ہے تو اس سے اسلام آباد کے ان خدشات کو زائل کرنے میں مدد ملے گی کہ امریکہ ڈھکے چھپے انداز میں ملک کے اندر خفیہ سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ ایسے کسی معاہدے سے فوج کی ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی جسے بن لادن پر حملے کے دوران امریکی ہیلی کاپٹروں کا سراغ لگانے میں ناکامی سے سخت ٹھیس پہنچ چکی ہے۔
تاہم سابق اور موجودہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کسی بھی تحریری معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا کیونکہ اس سے اس کی کارروائیاں واضح طور پر متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس کی بجائے آئندہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ کچھ عام اصولوں پر اتفاق کر سکتا ہے۔ ایک سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ دونوں ملک تعلقات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی کسی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط نہیں کریں گے۔
ایک اور امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگرچہ پاکستان کو امریکہ کی انٹیلیجنس سرگرمیوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کی جائیں گی مگر اسے باقی ملکوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی بتایا جائے گا۔
پاکستان میں معاہدے پر دستخط کےحوالے سے امریکہ اور اسلام آباد کی سویلین حکومت کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کی بازگشت سنی جا رہی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اس بات کی اجازت دے گی یا نہیں۔
اسامہ بن لادن پر حملے کے بعد سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان تعلقات بھی انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان میں مختلف طبقوں نے اُس وقت کے سی آئی اے کے سربراہ اور موجودہ وزیر دفاع لیون پینیٹا کے اس تلخ تبصرے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں ناکامی آئی ایس آئی کی نااہلی یا پھر ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی حکام کو خدشہ ہے کہ بن لادن پر حملے جیسی کارروائی ایک بار پھر کی جا سکتی ہے۔ وہ اس بات پر بھی فکر مند ہیں کہ سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس کے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں۔ ایک پاکستانی اہلکار کے مطابق پیٹریاس پاکستان میں یکطرفہ کارروائیوں کا حکم دے سکتے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک دونوں ملکوں کے درمیان اس حوالےسے باضابطہ معاہدے پر دستخط نہیں ہو جاتے، بداعتمادی کا خاتمہ ناممکن ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عابد حسین