پاکستان اور تحقیق کے خلاف نہ ختم ہونے والے سازشی نظریات
23 دسمبر 2020اس کی بدولت پاکستان سے بیرون ملک سفر کی دستاویزات میں پولیو سرٹیفیکیٹ بھی شامل ہے۔ پولیو ویکسین کو بھی شروع میں ہی شد ومد سے متنازعہ بنا دیا گیا تھا۔ منبر و بیٹھک میں بڑے وثوق سے اسے یہود و نصاریٰ کی سازش بتایا جاتا تھا جو کہ دراصل مسلمان آبادی کو بانجھ بنانے کا ایک منصوبہ ہے۔ آج تک پولیو کے قطرے مسلمان بچوں میں بیماری پھیلانے کا منصوبہ، بانجھ بنانے کا منصوبہ اور ذہنی نشو و نما کے خلاف سازش بتائے جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی رہنماؤں نے اپنا کردار وقت پر بخوبی ادا نہ کیا، جس کی وجہ سے منبر سے پولیو کے خلاف آگہی پھیلانے کے بجائے پولیو ویکسین یا قطروں کے خلاف گمراہ کن خطبات دیے جاتے رہے، حتیٰ کہ اب یہ نوبت آ گئی کہ مسلم ممالک بھی پولیو سرٹیفیکیٹ کے بغیر آپ کو سفر کی اجازت دینے سے قاصر ہیں۔
کورونا وبا پوری دنیا میں ایک عذاب بن کر اُتری۔ انسانی ترقی کا عروج، ٹیکنالوجی کی رفتار اور ساری دنیا کے وسائل مل کر بھی اس کا پھیلاؤ روکنے میں ناکام رہے مگر جو چیز فی الفور شروع کی گئی وہ اس وائرس کے بارے میں تحقیق تھی۔ یہ وائرس کیا ہے؟ کیسے اثر کرتا ہے؟ کس قدر مہلک ثابت ہو سکتا ہے؟ اس کا پھیلاؤ کیسے ہوتا ہے اور اسے روکا کیسے جا سکتا ہے؟
ان سب باتوں کے بارے میں جلد ہی معلومات حاصل کی جانے لگیں۔ ہاتھوں کو صابن سے دھونا، سماجی فاصلہ اور ماسک کا استعمال کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ تین نتائج فوری تحقیق کے نتیجے میں اخذ کیے گئے۔ سائنس کے مقابلے پر مذہب کو لانا آج سے نہیں رہتی دنیا سے چلا آ رہا ہے۔ کسی بھی تحقیق و مشاہدے کو مذہب و عقیدت سے لڑا دینا مختلف تہذیبوں اور خطوں کی روایت رہا ہے۔ ہمارے برصغیر میں تو مذہب ہی سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ سائنس و تحقیق پر مبنی ہر چیز کو توڑ مروڑ کر گناہ، بدعت اور غیر مذاہب کی سازش کا نام دیا جاتا ہے۔
کرونا وائرس کو پہلے پہل کافروں کی سزا، حرام جانور کھانے کا نتیجہ اور پھر عذاب قرار دیا گیا کہ جو پانچ وقت وضو کرے وہ تو محفوظ ہے لیکن پھر پتہ چلا کہ وائرس ہم انسانوں سے تو زیادہ وسیع النظر ہے کہ یہ مذہب، رنگ و نسل کی تمیز کیے بغیر سب کو ایک ہی طرح نمٹاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
’صرف مسلم دنیا میں ہی نہیں بلکہ یہ ہر جگہ ہو رہا ہے‘
وبا اور عوامیت پسندی: جرمنی میں سازشی نظریات کا پھیلاؤ
پھر سائنسی طریقے سے بنے صابن، سینیٹائزر اور بلیچ کام آنے لگے۔ جب وائرس نے ہر فرقے کے علماء کو بھی لپیٹ میں لینا شروع کیا تب سمجھ آیا کہ وائرس واقعی کسی سے کمزور نہیں۔ سائنس خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ وائرس کے وجود میں آنے کے ایک سال کے اندر ہی اس کا مقابلہ کرنے کو تین ویکسین اب تک تقریباﹰ تیاری کا مرحلہ پار کرنے کو ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے لائیو ویکسین ٹریکر سے دستیاب معلومات کے مطابق محقیقین اب تک 63 ویکسین کے کلینیکل ٹرائل انسانوں پر شروع کر چکے ہیں، جن میں سے 18 ویکسین کچھ فیصلہ کن نتائج تک پہنچ سکتی ہیں۔
ابھی ویکسین پاکستان پہنچی بھی نہیں لیکن اس کے خلاف مہم شروع ہو چکی ہے۔ ایک سابق سینیٹر نے سینکڑوں کے مجمعے میں یہ دعوی کیا کہ یہ ویکسین دجال کا منصوبہ ہے۔ اس کے لگتے ہی محرم رشتوں کی تمیز بھی ختم ہو جائے گی اور اس سے incest کو فروغ دیا جائے گا اور بالآخر منصوبہ ہو گا گریٹر اسرائیل کی تکمیل کا۔
ایک خود ساختہ دفاعی تجزیہ کار مزید انوکھی بات لائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بل گیٹس ایک دجال و شیطان ہے جنہوں نے کورونا وائرس کی ویکسین کی فنڈنگ کی اور منصوبہ یہ ہے کہ ویکسین کے ذریعے انسان کو مکمل ڈی این اے ہی بدل دیا جائے گا، جس سے وہ ایک مشینی صورت غلام بن جائے گا کیونکہ اس کی انسانی ہیئت تو بدل جائے گی۔ انتہائی مستند لہجے میں بغیر کسی وثوق اور دلیل کے ایک شخص آنے والی نسلوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ بل گیٹس کو غلط ناموں سے پکار کر اپنی جلن، عناد اور زہر افشانی کو تسکین پہنچائی جا رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام افراد کو ایئر ٹائم دینا، انہیں تجزیہ کار اور ماہر کا خطاب دے کر درسگاہوں، مجالس اور منبر کا اختیار دے دینا کہ جائیے بغیر تحقیق کے جہالت کا پرچار کیجیے۔ ان سب کے پیچھے مقاصد کیا ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جہالت ایک سلو پوائزن ہے۔ یہ آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو متشدد، جذباتی اور ذہنی غلام بناتی ہے۔ ایسے علماء، مدبر، اساتذہ اور رہنما ہر دور، ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، جو لوگوں کو گمراہی کا راستہ دکھاتے ہیں تاکہ ان کی اپنی دکانیں چلتی رہیں کیونکہ جب تک اندھی تقلید اور بغیر تحقیق کے یقین کرنے والے افراد موجود ہیں، اس وقت تک جھوٹ، فریب اور مکر بیچنا آسان رہتا ہے۔
دراصل کمزور ایمان یا جنون کی حد تک وطن پرستی میں مبتلا ہونا اور جہالت کا روزانہ کی عبادات اور ڈگریوں کی تعداد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان سب چیزوں کا تعلق ہمارے دماغ اور اطراف میں نسل در نسل گردش کرتی من گھڑت کہانیاں ہیں۔ کبھی مذہب یا عقیدے اور کبھی وطن اور قومیت کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا جسمانی، ذہنی اور مالی استحصال کیا جاتا ہے۔
سب صرف ذہن کی غلامی اور نفسیات کا کھیل ہے، جس میں ایک انسان دوسرے سے کھیل رہا ہے اور دوسرے کو پتا بھی نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے ایک انسان کا کھلونا بن چکا ہے۔ ایک انتہائی مشکل دور سے گزرنے کے بعد ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ بقا صرف تعلیم و تحقیق میں ہے، اس لیے کوئی بھی بات آگے پہنچانے یا تسلیم کرنے سے پہلے تصدیق کرنے کی عادت ڈالیں۔ بلا وجہ عالم و استاد بنانے سے پرہیز کریں اور کسی سوال کو ذہن میں ہی دفن نہ کریں بلکہ اس کا جواب تلاش کریں۔