'پاکستان بھارت کے ساتھ ماحولیاتی مذاکرات کا خواہاں'
11 نومبر 2022بھارت اور پاکستان دونوں ہی کو حالیہ عرصے میں ماحولیاتی اور موسمیاتی اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سن 2022 کے دوران موسمیاتی مصائب بالخصوص شدید گرم ہواؤں اور سیلاب کے حوالے سے ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کی ایک حالیہ رپورٹ میں دونوں ملکوں کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔
بھارتی روزنامے "دی ٹیلیگراف" کے مطابق شرم الشیخ میں جاری COP 27 ماحولیاتی سربراہی اجلاس کے دوران ایک سینیئر پاکستانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کو دونوں ممالک میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بات کرنا شروع کردینی چاہئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ "ابھی یا پھر کبھی نہیں" والی صورت حال ہے۔
پاکستان میں تباہی کے بعد ماحولیاتی معاوضے کی مہم میں تیزی
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت، آج کی دنیا کی ایک حقیقت
پاکستانی قومی اسمبلی کی رکن اور ماحولیاتی تبدیلی پر وزیر اعظم پاکستان کی خصوصی معاون رومینہ خورشید عالم نے "دی ٹیلیگراف" سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس مسئلے پر بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کا خواہش مند ہے۔
بھارتی حکام کا تبصرہ کرنے سے انکار
شرم الشیخ میں ماحولیاتی سربراہی کانفرنس میں شریک بھارتی عہدیداروں نے پاکستانی عہدیدار کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے تاہم کہا کہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ بات چیت کا کوئی بھی فیصلہ حکومت کے اعلیٰ حکام ہی کرسکتے ہیں۔
ایک بھارتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "کرکٹ کی طرح اس کا فیصلہ بھی ملک کے اعلیٰ حکام کو ہی کرنا ہے۔"
پاکستانی بیان کی اہمیت
ماحولیاتی تبدیلی پر وزیر اعظم پاکستان کی خصوصی معاون رومینہ خورشید عالم کا بیان اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اس وقت جی 77 ممالک کا چیئرمین ہے، جس کا بھارت بھی ایک رکن ہے۔ جی 77 اقو ام متحدہ میں ترقی پذیر ممالک کی سب سے بڑی بین حکومتی تنظیم ہے۔
ڈبلیو ایم او نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا ماحولیاتی تباہی کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار خطوں میں سے ایک ہے۔ اور اس کا سہرا بھارت اور پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش پر بھی جاتا ہے۔ جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اکثر بڑے پیمانے پر قدرتی آفات آتے رہتے ہیں۔
رومینہ خورشید عالم کا کہنا تھا، "ہمیں خدا کے واسطے کم از کم (ایک دوسرے سے بات نہ کرنے کے) اس موقف سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔، ہمیں بات چیت بحال کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں مل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ بات صاف اور واضح انداز میں کہہ رہی ہوں۔ جب تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے کوئی بھی ہمارے لیے کھڑا نہیں ہوگا۔"
انہوں نے سوال کیا، "اگر بھارت اور پاکستان دونوں پانی میں ڈوب گئے تو کون اور کس سے اور کہاں لڑے گا۔"
پاکستانی اعلیٰ عہدیدار نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ بھارت او رپاکستان بہت بڑے ممالک ہیں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں اور ذریعہ معاش خطر ے میں ہے، کہا " آخر ہم کیا کررہے ہیں؟ ہم کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟"
ماحولیاتی تبدیلیاں، ہیپاٹائٹس ای کیسے زیادہ پھیل رہا ہے؟
وزیر اعظم پاکستان کی ماحولیاتی مشیر کا کہنا تھا، "اگر یورپی یونین ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بات کرسکتی ہے تو ہم جنوبی ایشیا کی سطح پر ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟" انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
برف پگھلنی چاہئے
رومینہ خورشید عالم نے دونوں ممالک کے درمیان ماحولیاتی تعلقات میں برف پگھلنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں بھارت کے ایک سینیئر عہدیدار نے پاکستان میں علاقائی ماحولیات کے موضوع پر مباحثے میں حصہ لیا تھا۔
آزاد ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فوری طورپر مل کر کام شروع کردینا چاہئے۔
کوئی بچہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچ نہیں سکتا، یونیسیف
کلائمٹ ایکشن نیٹ ورک ساوتھ ایشیا کے ڈائریکٹر سنجے وششٹ کا کہنا تھا، "بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، جو ڈوب رہی ہے۔ جب تک وہ مل کر کام نہیں کرتے، مستقبل انتہائی بری طرح تباہ ہوگا، جو جنوبی ایشیا کے لوگوں کی ترقی اور معاشی نمو کو بھی متاثر کرے گا۔"
سنجے وششٹ کا کہنا تھا،" ان تینوں ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہم آہنگی اور مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔"