پاکستان : خواتین کی حالت بہتر بنانے کی ضرورت
25 نومبر 2011پاکستان میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر ہی نہیں آ پاتے اور ان مقدموں کا اندراج تک نہیں ہو پاتا۔ تاہم دستیاب اعدادوشمار کے مطابق مقدمات درج کرانے کے سلسلے میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عورتوں پر تشدد کے خلاف کام کرنے والی ایک کارکن شمائلہ تنویر کہتی ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی بہت بڑی تعداد کو جسمانی، ذہنی یا معاشی تشدد اور ناانصافیوں کا سامنا ہے۔2008ء سے لے کر اب تک کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ عورتوں پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال عورتوں کے خلاف تشدد کے آٹھ ہزار سے زائد مقدمات درج ہوتے ہیں۔
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی طرف سے تیار کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011ء کے پہلے چھ مہینوں میں4448 عورتوں پر تشدد کے واقعات منظر عام پر آئے۔ جبکہ پچھلے سال اسی عرصے میں4061 کیسز سامنے آئے تھے۔ عورتوں پر تشدد کے حوالے سے3035 کیسز کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب سر فہرست ہے جنکہ سندھ میں 819، خیبر پختونخواہ میں389، بلوچستان میں 133اور اسلام آباد کے وفاقی علاقےمیں 72 واقعات سامنے آئے۔
اس رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے سب سے زیادہ واقعات اغوا، قتل اور اجتماعی زیادتی کے تھے جبکہ اس دوران خواتین کے خود کشی کرنے کی واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ عورتوں کے خلاف تشدد میں غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور خواتین پر تیزاب پھینکنا بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران عورتوں پر تشدد کے واقعات بہت معمولی فرق کے ساتھ دیہی علاقوں میں کم اور شہری آبادیوں میں زیادہ دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میڈیا کی وجہ سے شہروں میں مقدمات رپورٹ ہونے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر نسرین زہرہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پچھلے بیس سالوں میں پاکستانی معاشرہ پرتشدد ہو گیا ہے اور خواتین آسان ہدف ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ شکار ہر رہی ہیں۔ ان کے بقول ایک تو خواتین پر تشدد روکنے کے حوالے سے قانون سازی التوا کا شکار ہے اور اس حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر بھی درست طریقے سے عمل نہیں ہو رہا ہے۔ اس لیےخواتین سیاسی اور معاشی عمل میں کافی پیچھے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم قانون دان نبیلہ شاہین نے بتایا کہ جائیداد بچانے کے لیے کم عمر بچیوں کو بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے، رشتے سے انکار پر بھی لڑکی ہی تشدد کا نشانہ بنتی ہے، ونی اور وٹے سٹے کی شادیاں آج بھی ہمارے ملک میں جاری ہیں۔ ان کے بقول حکومت کو گھریلو تشدد اور بچوں کی شادی کے حوالے سے قوانین منظور کرنے چاہییں اور جہیز سمیت خواتین کے حوالے سے تمام قوانین پر سختی سے عمل کروانا چاہیے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: عدنان اسحاق