پاکستان میں آٹھ فوجی ہلاک اور سات پولیس اہلکاروں کا اغوا
19 نومبر 2024خبر رساں ادارے اے ایف پی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں پولیس اور انٹیلیجنس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ پیر کے روز ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں "آٹھ فوجی" اور "نو عسکریت پسند" ہلاک ہو گئے۔
فورسز پر گھات لگا کر حملے کا یہ واقعہ خیبر میں افغان سرحد کے آس پاس پیش آیا۔ ممنوعہ گروپ تحریک طالبان پاکستان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایک دوسرے واقعے میں مسلح عسکریت پسندوں نے چیک پوائنٹ سے "سات پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا۔"
حکام کے مطابق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے سب ڈویژن وزیر میں پیر کی رات کو نامعلوم مسلح افراد نے روچہ چیک پوسٹ سے سات پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا۔
ضلع بنوں میں روچہ چیک پوسٹ عثمان زئی تھانے کی حدود میں آتا ہے اور یہ شمالی وزیرستان کی سرحد پر واقع ہے۔ یہ دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں سے ایک ہے۔
پاکستان: آپریشن کے دوران تین فوجی اور آٹھ عسکریت پسند ہلاک
ایک مقامی پولیس افسر نے پاکستان کے معروف میڈیا ادارے ڈان کو بتایا ہے کہ "مسلح عسکریت پسندوں نے چیک پوسٹ کو گھیرے میں لے کر زبردستی داخل ہوئے اور وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنا لیا۔"
مذکورہ پولیس اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ مسلح افراد نے "پولیس اہلکاروں سے سرکاری رائفلیں بھی چھین لیں۔"
پاکستان: بنوں تشدد پر وفاقی اور صوبائی حکومت آمنے سامنے
ضلعی پولیس افسر ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور اغوا کاروں کی گرفتاری کے لیے علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے۔"
اغوا کا یہ واقعہ مغرب کی نماز کے بعد اس وقت پیش آیا جب مسلح افراد کے ایک گروپ نے چیک پوسٹ پر دھاوا بول دیا اور پولیس اہلکاروں کو ان کے اسلحے سمیت کسی نامعلوم مقام پر لے گئے۔
اطلاعات کے مطابق چیک پوائنٹ پر دیگر پولیس اہلکار بھی تعینات تھے تاہم جس وقت مسلح افراد نے اس کا محاصرہ کیا اس وقت وہاں صرف سات اہلکار ہی موجود تھے۔
مغوی پولیس اہلکاروں کی شناخت سلیم، عقل رحمان، میوہ جان، روشن، عبدالمالک، نعمت اللہ اور شاد محمد کے نام سے کی گئی ہے۔ حکام ان کی رہائی کو یقینی بنانے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
بنوں ’امن مارچ‘ میں فائرنگ: ایک شخص ہلاک، درجنوں افراد زخمی
کسی بھی گروپ نے ابھی تک اس اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم شبہ ہے کہ اس میں کالعدم گروہ تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جو ٹی ٹی پی کے نام سے معروف ہے۔
حالیہ برسوں میں یہ گروپ اس خطے میں اکثر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتا رہا ہے، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا افغانستان سے 'دہشت گردوں' کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ الزام ٹی ٹی پی پر عائد کیا جاتا ہے یا پھر جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسندوں پر اس کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس صوبے میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی گروپ نے بڑے پیمانے پر شورش برپا کر رکھی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، نیوز ایجنسیاں)