پاکستان: ذہنی امراض اور ان سے آگاہی کا فقدان
17 فروری 2021یہ ایک پروجیکٹ تھا اور میں بھی اس کا حصہ تھی۔ اس دوران ہمیں پتا چلا کہ اس شدید ذہنی بیماری کے کچھ مریض جیل میں موت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کنیزہ بی بی تھیں، جن کی سزا کو حال ہی میں سپریم کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے۔ کنیزہ بی بی کے کیس کا تفصیلی جائزہ لینے پر پتا چلا کہ مبینہ طور پر اس سولہ سال کی لڑکی کو زبردستی اجتماعی قتل کے معاملے میں پھنسا دیا گیا تھا۔ شیزوفرینیا کے مریض ذہنی طور پہ انتہائی کمزور ہوتے ہیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول سے لا تعلق ہوتے ہیں، اس لیے انہیں کسی بھی مقدمے میں پھنسانا بہت آسان ہوتا ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں کنیزہ کے والد شیر محمد نے صدر مملکت کو خط لکھا اور بیٹی کے لیے رحم کی استدعا کی۔ خط کے متن کے مطابق کنیزہ گھریلو ملازمہ کے فرائض انجام دیتی تھیں اور جائیداد کے تنازعے پر گھر کی مالکن اور بچوں کا قتل ہوا۔ ملزمہ کے والد کے مطابق پولیس اسٹیشن میں کنیزہ پر شدید جسمانی تشدد کیا گیا اور اس کی عمر پچیس برس لکھی گئی، اس سے قتل کا اعتراف کروایا گیا۔
کنیزہ بی بی نے گیارہ سال شدید اذیت میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ سن دو ہزار میں ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ کنیزہ بی بی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن پھر بھی انہیں رہائی نہ مل سکی۔ شیر محمد انصاف کی آس لے کر دو ہزار سولہ میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔
یہ بھی پڑھیے:
جنات کا سایہ یا پھر شیزوفرینیا کی بیماری
شیزوفرینیا کے خطرات 35 گُنا تک بڑھانے والے جین کی دریافت
چند روز قبل تاریخ ساز فیصلے میں معزز عدالت کا کہنا تھا کہ اگر کسی مجرم کو ملنے والی سزائے موت کا ادراک ہی نہیں تو پھر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھر پور ستائش ملی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ذہنی بیماری کے مریضوں کا مستقبل کنیزہ بی بی اور امداد علی جیسا ہے؟ ان مریضوں نے سزائے موت کے انتظار میں کئی دہائیاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاٹیں اور پھر عمر قید کے مستحق ہوئے۔ ہمارے معاشرے میں وسیع پیمانے پر ذہنی امراض کو جن بھوت کا سایہ اور اس سے ملتے جلتے دقیانوسی خیالات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
متاثرہ افراد کے اہلخانہ مولویوں اور جادو ٹونے والے عامل حضرات کے ہتھکنڈوں میں بری طرح پھنس جاتے ہیں اور مریضوں کی ذہنی حالت ابتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ڈپریشن اور اینگزائٹی وغیرہ کو تو ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کی فہرست میں شمار ہی نہیں کیا جاتا جبکہ شیزوفرینیا اور بائے پولر کے شکار مریضوں کو پاگل تصور کیا جاتا ہے۔
چند سال قبل کراچی میں شیزوفرینیا کے ایک مریض پر اس کی بیوی اور سسرال والوں نے مقدمہ دائر کیا کہ وہ کنبے کا نان نفقہ پورا نہیں کرتا کیونکہ وہ بے روزگار ہے۔ معزز عدالت نے اس ذہنی مریض کو ایک سال قید کی سزا دی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا معزز عدالت، خود اس مریض یا اس کے گھر والوں کو علم تھا کہ وہ شدید ذہنی بیماری میں مبتلا ہے؟ جواب ہے، نہیں!
ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کو رد کرنے کی سب سے اہم وجہ آگاہی کی کمی ہے۔ معاشرے کا غریب طبقہ، جو پیٹ میں روٹی، تن پر کپڑا اور سر پر چھت کی فکر سے باہر نہیں نکلتا، اس کے لیے ذہنی امراض کی کوئی آگاہی مہم نہیں ہے۔
دوسری طرف متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ مریضوں کے اہلخانہ مختصر معلومات کی بنیاد پر سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں علاج کے لیے ذہنی مریضوں کا رش لگا ہوتا ہے اور ڈاکٹر دوائیو ں کی ایک طویل فہرست تھما دیتے ہیں۔ لیکن بیماری کی نوعیت کتنی سنگین ہے اور مریض کو کس قسم کا ماحول فراہم کرنا چاہیے؟ ایسی معلومات اور ٹریننگ کا فقدان ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ اور حکومت کے مشترکہ تعاون سے بڑے پیمانے پر ملک گیر آگاہی مہم کی ضرورت ہے، جس کی مدد سے علامات کی بنیاد پر اور مریضوں کے ابنارمل رویے کو دیکھ کر اہل خانہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور علاج کے لیے طبی ماہرین سے رجوع کریں۔