پاکستان ریلوے تباہی کے دہانے پر
14 اکتوبر 2011پاکستان ریلویزکی طرف سے ملک کے تمام حصوں میں برانچ لائنوں پر چلنے والی تمام مسافر گاڑیاں بند کر دی گئی ہیں جبکہ مال بردار گاڑیوں کو بھی غیر معینہ مدت کے لیے روک دیا گیا ہے۔ صرف چند بڑے شہروں کے درمیان چلنے والی ایکسپریس گاڑیوں کی آمدورفت جاری ہے لیکن مسافروں کا کہنا ہے کہ یہ ٹرینیں بھی تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔
حیدر آباد جانے کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن پر موجود ایک مسافر اطہر بیگ نے بتایا کہ ریلوے کا نظام ڈسٹرب ہونے سے مسافر ذہنی مریض بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کے بقول کوئی نہیں جانتا کہ گاڑی کب جائے گی۔
نذیر احمد نامی ایک اور مسافر کا کہنا تھا کہ اول تو گاڑی ملتی ہی نہیں اور اگر مل جائے تو چھ چھ گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوتی ہے۔ ان گاڑیوں میں سہولیات کا فقدان ہوتا ہے، نہ پنکھے چلتے ہیں اور نہ ہی ان ٹرینوں میں پانی ہوتا ہے۔
محمد مجید نامی ایک گارڈ نے بتایا کہ انھوں نے اپنی چوبیس سالہ ملازمت کے دوران پہلے مرتبہ پاکستان ریلویزکو اس قدر ابتر حالت میں دیکھا ہے۔ ان کے بقول ان کو ابھی تک تنخواہ نہیں مل سکی ہے۔
عزیز الرحمان نامی ایک مسافر ملتان جانے کے لیے لاہور اسٹیشن پر آئے تو انہیں پتہ چلا کہ ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے گاڑی ملتان نہیں جا رہی۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان ریلویز کے جنرل مینیجر آپریشن سعید اختر نے بتایا کہ ریلویز کی دو سو بیس ٹرینوں کو چلانے کے لیے ایک سو بانوے ریلوے انجن درکار ہیں جبکہ ان کے پاس اس وقت صرف نوے انجن موجود ہیں ۔اس وجہ سے سو سے زائد ٹرینیں بند کر دی گئی ہیں ۔
سعید اختر کے بقول ریلوے کے پاس موجود پانچ سو انجنوں میں سے ایک سو انجن نا قابل مرمت ہو چکے ہیِں۔ باقی چار سو میں سے دو سو پچاس انجنوں کو فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق پیسے نہ ہونے کی وجہ پاکستان ریلویز کو ڈیزل کے حصول میں بھی دشواری کا سامنا ہے اس کے علاوہ انجن بھی مرمت نہیں ہو سکے ہیں۔
یاد رہے پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ریلوے کی بحالی کے لیےقریب گیارہ ارب روپے کی منظوری دی تھی لیکن یہ رقم ابھی تک ریلوے کو نہیں دی گئی ہے۔
سعید اختر کے بقول ہر محکمے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن حکومت ادا کرتی ہے مگر پاکستان ریلوے اپنے ایک لاکھ پچیس ہزار ریٹائرڈ ملازمین کو اپنی جیب سے پنشن ادا کرتی ہے۔ ان کے مطابق ریلوے کے اٹہتر ہزار ملازمین کی تنخواہوں میں حکومت کی طرف سے کیے گئے اضافے کے اعلان نے بھی ریلوے کی مالی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔
ریلوے نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے چالیس ارب روپے اوور ڈرافٹ کے طور پر لے رکھے ہیں۔ حکومت سترہ فی صد شرح سود کے حساب سے زبوں حالی کے شکار اس محکمے سے اربوں روپے سود وصول کر رہی ہے، ’’پاکستان میں روڈ ٹریفک کے انفراسٹرکچر کی تعمیر و مرمت کا کام حکومت اپنے وسائل سے کرتی ہے لیکن ریلویز کو اپنے انفراسٹرکچر پر اپنی جیب سے اربوں روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ دوسرے ذرائع آمد و رفت سے مسابقت کی وجہ سے ریلوے سفری کرائے بھی نہیں بڑھا سکتی۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی کوئی ٹرانسپورٹ پالیسی نہیں ہے۔ اب ورلڈ بنک کی مدد سے ریلوے کے دکھوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ادھر پاکستان کے بنکوں کے ایک کنسورشیم نے چھ ارب روپے مالیت کا قرض ریلوے کو دینے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ ریلوے اس رقم سے انجن ٹھیک کروا کر نئی ٹرینیں چلائے گا اور یوں آئندہ آمدنی سے یہ قرض اتارے گا۔
پاکستان ریلوے کو ہر سال پچیس سے تیس ارب روپے کا خسارہ ہوتا ہے۔ اس خسارے سے بچنے کے لیے کچھ مال بردار اور مسافر گاڑیوں کو نجی شعبے کے ذریعے چلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
سعید اختر ریلوے میں کرپشن کو بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریلوے کو اتنا نقصان کرپشن نے نہیں پہنچایا جتنا نقصان غلط فیصلوں نے پہنچایا ہے۔
وہ کہتے ہیں جب ساری خبریں ہی بری آ رہی ہوں تو اچھے کام بھی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ پاکستان ریلوے اپنے وسائل سے کراچی سے لاہور تک سارا ٹریک ٹو وے کر رہا ہے اور یہ شاندار کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور اسے اسی مالی سال میں کامیابی سے مکمل کر لیا جائے گا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: امتیاز احمد