پاکستان: سیاسی تبدیلی کا آغاز، عالمی میڈیا
13 مئی 2013جرمن شہر میونخ سے شائع ہونے والے اخبار ’زوڈ ڈوئچے‘ نے ان انتخابی نتائج کی روشنی میں پاکستان میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی پیشین گوئی کرتے ہوئے لکھا ہے:’’گیارہ مئی کا دن محض پاکستان کے فرسودہ نظام حکومت ہی کے لیے ایک بڑی کامیابی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ شریف کے فتح مندی کے نعروں میں یہ چیز نظروں سے اوجھل ہو جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت کچھ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ انتخابات بڑی تبدیلیوں کے عکاس ہیں، ایک ایسے معاشرے میں، جو آگے چل کر سیاست پر مخصوص سیاسی خاندانوں کی اجارہ داری کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ ایک ’نیا پاکستان‘ بنانے کے خواہاں کرکٹ اسٹار عمران خان بہرحال ملک کی دوسری بڑی سیاسی قوت بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی اُس نمائشی جمہوریت میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں، جسے اب تک محض مراعات یافتہ طبقوں ہی کا ناقابل تسخیر قلعہ گردانا جاتا تھا۔‘‘
جرمن شہر ہیمبرگ سے شائع ہونے والے روزنامے ’دی ویلٹ‘ کے مطابق طالبان کی جانب سے حملوں کے باوجود رائے دہندگان کی بھاری تعداد کی جانب سے انتخابات میں شرکت کو جمہوریت کی فتح کہا جانا چاہیے تاہم قدامت پسندوں کا اثر و نفوذ بڑھنے کے بھی خطرات موجود ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:’’پاکستان میں جمہوریت کے خدّ و خال واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم ان انتخابات کے نتائج اِس کامیابی کو شک و شبے میں بھی مبتلا کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کوئی اسلام پسند (مذہبی) جماعت نہیں لیکن اُس کے طاقتور ترین قوت کے طور پر سامنے آنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ قدامت پسند مذہبی عناصر کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ 2014ء میں خطّے سے مغربی دنیا کے انخلاء کے بعد ایک ایسے امن کا خطرہ نظر آ رہا ہے، جس میں طالبان فاتح ہوں گے۔‘‘
کچھ ایسے ہی خطرات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ لکھتا ہے:’’یہ سوال بدستور موجود ہے کہ شریف ایک اور کلیدی مسئلے یعنی پُر تشدد اسلامی انتہا پسندی کی جانب کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے۔ ناقدین اُن کی جماعت پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اُس کا انتہا پسندوں کی جانب رویہ بہت زیادہ لچکدار ہے اور یہ کہ اسی وجہ سے اس جماعت نے پنجاب میں، جہاں شریف کی مسلم لیگ کی جڑیں سب سے زیادہ مضبوط ہیں، عسکر یت پسند گروپوں کے خلاف سخت اقدامات نہیں کیے ہیں۔‘‘
امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے ’واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے:’’توقع یہ کی جا رہی ہے کہ (نواز) شریف ا مریکا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے لیے کوشاں ہوں گے۔ امریکا گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان کو مالی وسائل فراہم کرنے والا اہم ترین ملک ہے لیکن افغانستان کے سلسلے میں پاکستان کے عزائم کو بداعتمادی کی نظر سے دیکھتا ہے۔‘‘
چین کی سرکاری نیوز ایجنسی سنہوا نے اپنے ایک جائزے میں اس نکتے کو موضوع بنایا ہے کہ نئی حکومت میں اور کون کون سے عناصر شامل ہوں گے۔ ساتھ ہی اس جائزے میں اس بات کو بھی جانچا گیا ہے کہ کیسے شریف انتخابات جیت گئے۔ سنہوا کے مطابق:’’مسلم لیگ اکیلے حکومت نہیں بنا سکے گی اور اُسے دیگر جماعتوں کی ضرورت پڑے گی۔ تاہم ایسا کوئی اقدام اُن اصلاحات کو مشکل بنا دے گا، جن کے بغیر اقتصادی ترقی ممکن نہیں ہے۔ شریف اقتصادی ترقی کو غربت اور بدعنوانی میں جکڑے ہوئے پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔ لوگ غیر مطمئن ہیں۔‘‘ سنہوا نے کرکٹ اسٹار عمران خان کو ’پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر تازہ ہوا کے جھونکے سے‘ تعبیر کیا ہے۔
امریکی شہر بوسٹن سے شائع ہونے والے جریدے ’کرسچین سائنس مانیٹر‘ نے عوامیت پسند سیاستدان عمران خان کی مقبولیت کو ایک مثبت تبدیلی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:’’اگرچہ خان امریکی ڈرون حملوں کے خلاف ہے لیکن پی ٹی آئی کی فتح امریکا کے لیے سود مند ثابت ہو گی اور طویل المدتی بنیادوں پر پاکستان کے ساتھ اُس کے تعلقات کو بہتر بنائے گی۔ پی ٹی آئی کی کامیابی پاکستان کی روایتی سیاست کے خاتمے کی علامت ہے اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت اور خواتین اور اقلیتوں کے بہتر حقوق کی جانب ایک قدم ہے۔‘‘
بھارتی جریدے ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے امید ظاہر کی ہے کہ شریف کی کامیابی سے دو طرفہ تعلقات میں مثبت تبدیلیاں نظر آئیں گی:’’شریف نے واضح کیا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی کے عمل کو پھر وہیں سے شروع کرنا چاہیں گے، جہاں انہیں اُسے1999ء میں اپنی معزولی کے وقت چھوڑنا پڑا تھا۔ 1998ء میں بھارتی ایٹمی تجربے کے جواب میں پاکستانی ایٹمی تجربے کرنے کے بعد شریف نے اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مل کر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔‘‘ اپنی موجودہ انتخابی کامیابی کے بعد شریف نے کہا کہ ’بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا جائے گا اور کشمیر کے مسئلے سمیت تمام مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کیا جائے گا‘۔
H.Gui/aa/km