پاکستان: غیر قانونی قیام والے افغان مہاجرین کی ملک بدری تیز
23 دسمبر 2022خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور افغانستان کی جانب سے سرحدوں کی خلاف ورزی اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے بعد خیبر پختونخوا میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سال رواں کے دوران چھ ہزار چون افغان مہاجرین کو گرفتار کیا ہے جن میں بعض کے خلاف 14 فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں ڈی پورٹ کیا گیا جبکہ دہشت گردی ، قتل، ڈکیتی، راہزنی اور دیگر مقدمات میں ملوث افغانوں کو جیل بیجھ دیا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چودہ لاکھ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی طور پر پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر افغان ہیں ۔ ان کی زیادہ تعداد خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر ہے۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف ہے کہ عسکریت پسندوں کے زیادہ تر لیڈر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں سے وہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں سرگرم ہیں۔
کریک ڈاؤن
پشاور سٹی پولیس کے سپرنٹنڈنٹ عبدالسلام خالد کا کہنا ہے،''غیر قانونی طور یہاں رہائش پذیر افغانوں کے خلاف آپریشن جاری ہے ۔ دستاویزات نامکمل ہونے پر انہیں گرفتار کرکے ڈی پورٹ کیا جاتا ہے جبکہ بعض کےسنگین جرائم میں ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔ جس طرح آجکل اسٹریٹ کرائمز اور بھتہ خوری میں اضافہ ہوا اس طرح کی وارادات میں بعض غیر قانونی افغان طور پر یہاں رہنے والے مہاجرین ملوث پائے گئے ہیں۔ انہیں گرفتار کرکے قانون کے حوالے کیا جاتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بازاروں میں گن پوائینٹ پر نقدی اور موبائل فون چھین کر ایک مخصوص گروپ کو فروخت کیے جاتے ہیں جسےافغانستانسمگل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح افغان موبائل سم استعمال کرنے والے بعض مہاجرین بھتہ خوری کے لیے کالز میں بھی ملوث ہوتے ہیں ۔‘‘
پشاور کی تاجر برادری بھی پریشان
پشاور میں تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ یہاں تین طرح کے افغان مہاجرین ہیں جن میں سیٹیزن کارڈ رکھنے والے ، غیر قانونی رہائش پذیر اور جعلی پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے شامل ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ جعلی شناختی کارڈ پر کاروبار کرتے ہیں انہیں مارکیٹ کے بڑے تاجروں کے ساتھ روابط استوار کرکے انکے بارے میں سب کچھ معلوم کرتے ہیں اور وہی یہ انفارمیشن پاس کرتے ہیں جسکی وجہ سے ان کاروباری لوگوں کو بھتے کی کالز آتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھتے اور اغوا کے ڈر سے کئی بڑے تاجر پشاور چھوڑ کر اسلام آباد اور لاہور منتقل ہوچکے ہیں ۔
حفاظتی باڑھ
پاکستان نےدہشت گردی میں ملوث افراد کی نقل و حمل روکنے کے لیے پاکستان اور افغان سرحد پر2017 ء میں باڑھ لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ چھبیس سو کلومیٹرطویل باڑھ پر تقریباً چورانوے فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ افغانستان میں ہر حکومت نے اس کی مخالفت کی ہے تاہم طالبان کی حکومت کے دوران بعض مقامات پر حفاظتی باڑھ کا کچھ حصہ کاٹ لیا گیا اور اسکی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی ۔ افغان باشندے سرحد پر تعینات پاکستانی اہلکاروں کی ملی بھگت سے بھی سرحد کراس کرکے پاکستان میں پہنچ جاتے ہیں سرحد پر تعینات اداروں کے پاس یہاں آنے والوں کا کوئی ریکاڑد نہیں ہوتا کہ جس سے قانون نافذ کرنے والوں کو یہ اندازہ ہوسکے کہ کون کہاں رہائش پذیر ہے ۔
یو این ایچ سی آر کی واپسی کا پروگرام عارضی طور پر بند
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے سال 2002 سے افغان مہاجرین کی رضا کارانہ واپسی کے پروگرام کا آغاز کیا ان کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک اس پروگرام کے تحت 3 تا 5 ملین افغان مالی امداد لیکر افغانستان جاچکے ہیں لیکن اس میں بہت سارے حالات کی خرابی اور مالی مشکلات کی وجہ سے پہاڑی راستوں سے واپس پاکستان آتے ہیں ۔موسم سرما کے دوران یو این ایچ سی کا واپسی کا پروگرام عارضی طور بند کیا جاتا ہے تاہم افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد زیادہ افغان واپس جانے کے لیے تیار نہیں ۔
یورپ اور امریکہ جانے کے خواہشمند پاکستان پہنچ رہے ہیں
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں ہزاروں افغان یورپ ، امریکہ اور مڈل ایسٹ چلے گئے وہاں ایک بڑی تعداد پاکستانپہنچ گئی ہے۔ ان میں زیادہ تر تعلیم یافتہ افغان ہیں جو یورپ جانے کے لیے پشاور اور اسلام آباد میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹہرے ہیں ۔ ان لوگوں میں فیض سخی بھی شامل ہیں جو کابل یونیورسٹی میں پندرہ سال تک موسیقی کی تعلیم دیتے رہےفیض سخی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' ہم بے سرو سامانی کے عالم میں پشاور پہنچ گئے۔ یہاں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں اور یہاں میوزک اکیڈیمی کھولی ہے جس سے گھر کا خرچہ چل رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب یہاں بھی حالات ٹھیک نہیں لہٰذا کوشش ہے کہ کہیں باہر کے ملک کی طرف نکل جاؤں۔‘‘